سبھی سے ہم نہیں کھلتے کہ سب نہیں کھلتے

سبھی سے ہم نہیں کھلتے کہ سب نہیں کھلتے
وگرنہ محفل یاراں میں کب نہیں کھلتے


ہر ایک شخص کو حسن نظر نہیں ملتا
ہر ایک شخص پہ شعر و ادب نہیں کھلتے


یہاں پہ داد کو زنجیر اب نہیں کھنچتی
یہاں پہ عدل کو دروازے اب نہیں کھلتے


کہیں انا پہ یقیناً لگی ہے چوٹ نئی
پرانے زخم یوں ہی بے سبب نہیں کھلتے


یہ دور وہ نہیں پھر بھی شریف زادوں کے
بزرگ سامنے گر ہوں تو لب نہیں کھلتے


ہمارے عیب ہمیں جو بتائے سو محسن
کہ آئنوں پہ بھی خود کے عقب نہیں کھلتے


کبھی نقیبؔ سبھی پر کھلی کتاب کوئی
کبھی تو ہم پہ بھی خود اپنے ڈھب نہیں کھلتے