مستقبل کی سب دل خوش کن باتیں خوابوں تک محدود
مستقبل کی سب دل خوش کن باتیں خوابوں تک محدود
انس محبت مہر و وفا گر ہیں تو کتابوں تک محدود
شعر و ادب کو سرحد ورحد سے کیا لینا دینا ہے
شعر و ادب کی دنیا کیوں ہے آج نصابوں تک محدود
کاروبار دروغ شریفوں کے ایوانوں تک پہنچا
سچ کی دولت ہو کر رہ گئی خانہ خرابوں تک محدود
استغنا سے آب آتی ہے خودداری کے چہرے پر
جھوٹی انا کی حیثیت کیا صرف حسابوں تک محدود
میرؔ و غالبؔ کا سرمایہ آہیں آنسو خون جگر
دھن دولت شاہوں کا حصہ عیش نوابوں تک محدود
اپنے حال ہی گم دل والے اپنی کھال میں مست نقیبؔ
اس نشہ کو وہ کیا جانیں جو ہیں شرابوں تک محدود