Farooq Shafaq

فاروق شفق

  • 1945 - 1996

فاروق شفق کی غزل

    دن کو تھے ہم اک تصور رات کو اک خواب تھے

    دن کو تھے ہم اک تصور رات کو اک خواب تھے ہم سمندر ہو کے بھی اس کے لئے پایاب تھے سرد سے مرمر پہ شب کو جو ابھارے تھے نقوش صبح کو دیکھا تو سب عکس ہنر نایاب تھے وہ علاقے زندگی بھر جو نمی مانگا کئے کل گھٹائیں چھائیں تو دیکھا کہ زیر آب تھے اک کرن بھی عہد میں ان کے نہ بھولے سے ملی دن کے جو ...

    مزید پڑھیے

    دنیا کیا ہے برف کی اک الماری ہے

    دنیا کیا ہے برف کی اک الماری ہے ایک ٹھٹھرتی نیند سبھی پر طاری ہے کہرا اوڑھے اونگھ رہے ہیں خستہ مکاں آج کی شب بیمار دیوں پر بھاری ہے سب کانوں میں اک جیسی سرگوشی سی ایک ہی جیسا درد زباں پر جاری ہے شام کی تقریبات میں حصہ لینا ہے کچا رستہ دھول اٹی اک لاری ہے گوری چٹی دھوپ بلائے ...

    مزید پڑھیے

    دھیرے دھیرے شام کا آنکھوں میں ہر منظر بجھا

    دھیرے دھیرے شام کا آنکھوں میں ہر منظر بجھا اک دیا روشن ہوا تو اک دیا اندر بجھا وہ تو روشن قمقموں کے شہر میں محصور تھا سخت حیرت ہے کہ ایسا آدمی کیوں کر بجھا اس سیہ خانے میں تجھ کو جاگنا ہے رات بھر ان ستاروں کو نہ بے مقصد ہتھیلی پر بجھا ذہن کی آوارگی کو بھی پناہیں چاہیئے یوں نہ ...

    مزید پڑھیے

    پو پھٹی ایک تازہ کہانی ملی

    پو پھٹی ایک تازہ کہانی ملی خیریت اس کی دن کی زبانی ملی کوئی راحت نہ ہم کو زمینی ملی جو بھی سوغات تھی آسمانی ملی قید دیوار و در سے جو محفوظ ہے ایسے گھر کی ہمیں پاسبانی ملی کوئی پتا نہ کھڑکا کہیں رات بھر ہر طرف خوف کی حکمرانی ملی اور بھی لوگ تھے شہر بیمار میں اک ہمیں کو مگر ...

    مزید پڑھیے

    کھڑکیوں پر ملگجے سائے سے لہرانے لگے

    کھڑکیوں پر ملگجے سائے سے لہرانے لگے شام آئی پھر گھروں میں لوگ گھبرانے لگے شہر کا منظر ہمارے گھر کے پس منظر میں ہے اب ادھر بھی اجنبی چہرے نظر آنے لگے دھوپ کی قاشیں ہرے مخمل پہ ضو دینے لگیں سائے کمروں سے نکل کر صحن میں آنے لگے جگنوؤں سے سج گئیں راہیں کسی کی یاد کی دن کی چوکھٹ پر ...

    مزید پڑھیے

    وہ الگ چپ ہے خود سے شرما کر

    وہ الگ چپ ہے خود سے شرما کر کیا کیا میں نے ہاتھ پھیلا کر پھل ہر اک ڈال پر نہیں ہوتے سنگ ہر ڈال پر نہ پھینکا کر تازہ رکھنے کی کوئی صورت سوچ سوکھے لب پر زباں نہ پھیرا کر دشت سورج میں کیا ملا ہم کو رہ گیا رنگ اپنا سنولا کر مٹ نہ جائے کہیں وجود ترا خود کو فرصت میں چھو کے دیکھا ...

    مزید پڑھیے

    اجڑے نگر میں شام کبھی کر لیا کریں

    اجڑے نگر میں شام کبھی کر لیا کریں مجھ سے دعا سلام کبھی کر لیا کریں جنگل کے پھول ہی سہی لیکن ہیں کام کے ساتھ ان کے بھی قیام کبھی کر لیا کریں ہر راہ صاف سیدھی نہیں پر خطر بھی ہے سورج چھپے تو شام کبھی کر لیا کریں موسم ہے خوش گوار تو شاخیں بھی سر پہ ہیں ان کا بھی احترام کبھی کر لیا ...

    مزید پڑھیے

    چھاؤں کی شکل دھوپ کی رنگت بدل گئی

    چھاؤں کی شکل دھوپ کی رنگت بدل گئی اب کے وہ لو چلی ہے کہ صورت بدل گئی ہنسنا ہنسانا اپنا مشینی عمل ہوا بدلی ہوائے شہر تو عادت بدل گئی اچھا سا سوٹ جسم پر اپنے سجا کے وہ خوش ہے کہ جیسے گھر کی بھی حالت بدل گئی سر کو چھپایا پاؤں بھی کھلنے نہیں دیا خواہش بڑھی تو اپنی ضرورت بدل ...

    مزید پڑھیے

    رات کافی لمبی تھی دور تک تھا تنہا میں

    رات کافی لمبی تھی دور تک تھا تنہا میں اک ذرا سے روغن پر کتنا جلتا بجھتا میں سب نشان قدموں کے مٹ گئے تھے ساحل سے کس کے واسطے آخر ڈوبتا ابھرتا میں میرا ہی بدن لیکن بوند بوند کو ترسا دست اور صحرا پر ابر بن کے برسا میں ادھ جلے سے کاغذ پر جیسے حرف روشن ہوں اس کی کوششوں پر بھی ذہن سے ...

    مزید پڑھیے

    پھولوں کو ویسے بھی مرجھانا ہے مرجھائیں گے

    پھولوں کو ویسے بھی مرجھانا ہے مرجھائیں گے کھڑکیاں کھولیں تو سناٹے چلے آئیں گے لاکھ ہم اجلی رکھیں شہر کی دیواروں کو شہر نامہ تو بہرحال لکھے جائیں گے راکھ رہ جائے گی روداد سنانے کے لیے یہ تو مہمان پرندے ہیں چلے جائیں گے اپنی لغزش کو تو الزام نہ دے گا کوئی لوگ تھک ہار کے مجرم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2