Farooq Shafaq

فاروق شفق

  • 1945 - 1996

فاروق شفق کے تمام مواد

18 غزل (Ghazal)

    دن کو تھے ہم اک تصور رات کو اک خواب تھے

    دن کو تھے ہم اک تصور رات کو اک خواب تھے ہم سمندر ہو کے بھی اس کے لئے پایاب تھے سرد سے مرمر پہ شب کو جو ابھارے تھے نقوش صبح کو دیکھا تو سب عکس ہنر نایاب تھے وہ علاقے زندگی بھر جو نمی مانگا کئے کل گھٹائیں چھائیں تو دیکھا کہ زیر آب تھے اک کرن بھی عہد میں ان کے نہ بھولے سے ملی دن کے جو ...

    مزید پڑھیے

    دنیا کیا ہے برف کی اک الماری ہے

    دنیا کیا ہے برف کی اک الماری ہے ایک ٹھٹھرتی نیند سبھی پر طاری ہے کہرا اوڑھے اونگھ رہے ہیں خستہ مکاں آج کی شب بیمار دیوں پر بھاری ہے سب کانوں میں اک جیسی سرگوشی سی ایک ہی جیسا درد زباں پر جاری ہے شام کی تقریبات میں حصہ لینا ہے کچا رستہ دھول اٹی اک لاری ہے گوری چٹی دھوپ بلائے ...

    مزید پڑھیے

    دھیرے دھیرے شام کا آنکھوں میں ہر منظر بجھا

    دھیرے دھیرے شام کا آنکھوں میں ہر منظر بجھا اک دیا روشن ہوا تو اک دیا اندر بجھا وہ تو روشن قمقموں کے شہر میں محصور تھا سخت حیرت ہے کہ ایسا آدمی کیوں کر بجھا اس سیہ خانے میں تجھ کو جاگنا ہے رات بھر ان ستاروں کو نہ بے مقصد ہتھیلی پر بجھا ذہن کی آوارگی کو بھی پناہیں چاہیئے یوں نہ ...

    مزید پڑھیے

    پو پھٹی ایک تازہ کہانی ملی

    پو پھٹی ایک تازہ کہانی ملی خیریت اس کی دن کی زبانی ملی کوئی راحت نہ ہم کو زمینی ملی جو بھی سوغات تھی آسمانی ملی قید دیوار و در سے جو محفوظ ہے ایسے گھر کی ہمیں پاسبانی ملی کوئی پتا نہ کھڑکا کہیں رات بھر ہر طرف خوف کی حکمرانی ملی اور بھی لوگ تھے شہر بیمار میں اک ہمیں کو مگر ...

    مزید پڑھیے

    کھڑکیوں پر ملگجے سائے سے لہرانے لگے

    کھڑکیوں پر ملگجے سائے سے لہرانے لگے شام آئی پھر گھروں میں لوگ گھبرانے لگے شہر کا منظر ہمارے گھر کے پس منظر میں ہے اب ادھر بھی اجنبی چہرے نظر آنے لگے دھوپ کی قاشیں ہرے مخمل پہ ضو دینے لگیں سائے کمروں سے نکل کر صحن میں آنے لگے جگنوؤں سے سج گئیں راہیں کسی کی یاد کی دن کی چوکھٹ پر ...

    مزید پڑھیے

تمام