رات کافی لمبی تھی دور تک تھا تنہا میں

رات کافی لمبی تھی دور تک تھا تنہا میں
اک ذرا سے روغن پر کتنا جلتا بجھتا میں


سب نشان قدموں کے مٹ گئے تھے ساحل سے
کس کے واسطے آخر ڈوبتا ابھرتا میں


میرا ہی بدن لیکن بوند بوند کو ترسا
دست اور صحرا پر ابر بن کے برسا میں


ادھ جلے سے کاغذ پر جیسے حرف روشن ہوں
اس کی کوششوں پر بھی ذہن سے نہ اترا میں


دونوں شکلوں میں اپنے ہاتھ کچھ نہیں آیا
کتنی بار سمٹا میں کتنی بار پھیلا میں


زندگی کے آنگن میں دھوپ ہی نہیں اتری
اپنے سرد کمرے سے کتنی بار نکلا میں


آج تک کوئی کشتی اس طرف نہیں آئی
پانیوں کے گھیرے میں ایسا ہوں جزیرہ میں


کاٹتا تھا ہر منظر دوسرے مناظر کو
کوئی منظر آنکھوں میں کس طرح سے بھرتا میں