Farooq Shafaq

فاروق شفق

  • 1945 - 1996

فاروق شفق کی غزل

    آندھیوں کا خواب ادھورا رہ گیا

    آندھیوں کا خواب ادھورا رہ گیا ہاتھ میں اک سوکھا پتا رہ گیا شہر تو ثابت ہوا شہر خیال آنکھ میں بس اک دھندلکا رہ گیا آ گئے بارش کے دن دیوار پر اک ذرا سا رنگ کچا رہ گیا کھلکھلا کر دھوپ پیچھے ہٹ گئی ہوتے ہوتے اک تماشا رہ گیا راستے اک دوسرے میں کھو گئے ہاتھ میں سڑکوں کا نقشا رہ ...

    مزید پڑھیے

    کوئی بھی شخص نہ ہنگامۂ مکاں میں ملا

    کوئی بھی شخص نہ ہنگامۂ مکاں میں ملا ہر ایک جلتے ہوئے غم کے سائباں میں ملا کوئی نہ ذہن میں صورت نہ کوئی خاکہ ہے وہ مجھ سے جب بھی ملا ملگجے دھواں میں ملا بیان کرنے پہ آؤں تو لفظ ٹوٹتے ہیں وہ ایک عکس جو بجھتے ہوئے سماں میں ملا وہ شے کہ جس نے دھواں دل میں میرے پھیلایا نشان اس کا نہ ...

    مزید پڑھیے

    اپنی پہچان کوئی زمانے میں رکھ

    اپنی پہچان کوئی زمانے میں رکھ خود کو ضائع نہ کر کچھ خزانے میں رکھ رات کی بے لباسی پہ مضمون لکھ شام کے پھول چن کے لفافے میں رکھ روشنی کی ضرورت پڑے گی تجھے آگ محفوظ کچھ آشیانے میں رکھ جانتا ہوں مرا کوئی مصرف نہیں ایک فیشن سمجھ کے حوالے میں رکھ سارے تیروں کو اک ساتھ ضائع نہ ...

    مزید پڑھیے

    منظر عجب تھا اشکوں کو روکا نہیں گیا

    منظر عجب تھا اشکوں کو روکا نہیں گیا ہنستا ہوا جو آیا تھا ہنستا نہیں گیا اک بار یوں ہی دیکھ لیا تھا اسے کہیں پھر اس کے بعد شہر میں دیکھا نہیں گیا تھی جس کے دم سے رونق محفل ہما ہمی دعوت میں اس غریب کو پوچھا نہیں گیا ساری خدائی خود ہی کھنچی جاتی تھی ادھر میں خود وہاں گیا مجھے بھیجا ...

    مزید پڑھیے

    بہت دھوکا کیا خود کو مگر کیا کر لیا میں نے

    بہت دھوکا کیا خود کو مگر کیا کر لیا میں نے تماشا مجھ کو کرنا تھا تماشا کر لیا میں نے یہاں بھی اب نئی آبادیوں کا شور سنتا ہوں یہاں سے بھی نکلنے کا ارادہ کر لیا میں نے سفر میں دھوپ کی شدت کہاں تک جھیلتا آخر تری یادوں کو اوڑھا اور سایہ کر لیا میں نے کوئی اچھا نہیں سب لوگ اک جیسے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    گھر کی چیزوں سے یوں آشنا کون ہے

    گھر کی چیزوں سے یوں آشنا کون ہے اس خرابے میں آیا گیا کون ہے صبح کی شوخ کرنوں کو کیا ہے خبر رات بھر اوس میں بھیگتا کون ہے پھول آنکھوں کے چپ سے اٹھا لیجیے پیچھے مڑ کے یہاں دیکھتا کون ہے دھول اوڑھے صحیفے بتائیں بھی کیا رات بھر طاق دل میں جلا کون ہے سامنے جھیل ہے جھیل میں ...

    مزید پڑھیے

    ہونے والا تھا اک حادثہ رہ گیا

    ہونے والا تھا اک حادثہ رہ گیا کل کا سب سے بڑا واقعہ رہ گیا رات آنگن میں اتری نہیں چاندنی چاند شاخوں میں الجھا ہوا رہ گیا ہم نے کہہ سن لیا مطمئن ہو گئے اور اب کہنے سننے کو کیا رہ گیا صبح ہوگی کہانی بنے گی کوئی زندگی کا یہی مسئلہ رہ گیا میں نے نفرت کی کھائی پہ پل رکھ دیا پھر بھی ...

    مزید پڑھیے

    یاد رکھتے کس طرح قصے کہانی لوگ تھے

    یاد رکھتے کس طرح قصے کہانی لوگ تھے وہ یہاں کے تھے نہیں وہ آسمانی لوگ تھے سوکھے پیڑوں کی قطاریں روکتیں کب تک انہیں اڑ گئے کرتے بھی کیا برگ خزانی لوگ تھے زندگی آنکھوں پہ رکھ کر ہاتھ پیچھے چھپ گئی درمیاں رہ کر بھی سب کے آنجہانی لوگ تھے کل یہیں پر لہلہاتی تھیں ہنسی کی کھیتیاں کل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2