Farigh Bukhari

فارغ بخاری

فارغ بخاری کی غزل

    ہوئے ہیں سرد دماغوں کے دہکے دہکے الاؤ

    ہوئے ہیں سرد دماغوں کے دہکے دہکے الاؤ نفس کی آنچ سے فکر و نظر کے دیپ جلاؤ کرن کرن کو سیہ بدلیوں نے گھیر لیا ہے تصورات کے دھندلے چراغو راہ دکھاؤ کہاں ہے گردش دوراں کدھر ہے سیل حوادث سکون‌ مرگ مسلسل میں ڈوبنے لگی ناؤ کبھی خزاں کے بگولے کبھی بہار کے جھولے سمجھ سکے نہ زمانے کے یہ ...

    مزید پڑھیے

    تیری خاطر یہ فسوں ہم نے جگا رکھا ہے

    تیری خاطر یہ فسوں ہم نے جگا رکھا ہے ورنہ آرائش افکار میں کیا رکھا ہے ہے ترا عکس ہی آئینۂ دل کی زینت ایک تصویر سے البم کو سجا رکھا ہے برگ صد چاک کا پردہ ہے شگفتہ گل سے قہقہوں سے کئی زخموں کو چھپا رکھا ہے اب نہ بھٹکیں گے مسافر نئی نسلوں کے کبھی ہم نے راہوں میں لہو اپنا جلا رکھا ...

    مزید پڑھیے

    وہ روشنی ہے کہاں جس کے بعد سایا نہیں

    وہ روشنی ہے کہاں جس کے بعد سایا نہیں کسی نے آج تلک یہ سراغ پایا نہیں کہاں سے لاؤں وہ دل جو ترا برا چاہے عدوئے جاں ترا دکھ بھی کوئی پرایا نہیں تری صباحت صد رنگ میں بکھر جاؤں ابھی وہ لمحہ مری زندگی میں آیا نہیں ترے وجود پہ انگڑائی بن کے ٹوٹا ہے وہ نغمہ جو کسی مطرب نے گنگنایا ...

    مزید پڑھیے

    جنگل اگا تھا حد نظر تک صداؤں کا

    جنگل اگا تھا حد نظر تک صداؤں کا دیکھا جو مڑ کے نقشہ ہی بدلا تھا گاؤں کا جسموں کی قید توڑ کے نکلے تو شہر میں ہونے لگا ہے ہم پہ گماں دیوتاؤں کا اچھا ہوا تہی ہیں زر بندگی سے ہم ہر موڑ پر ہجوم کھڑا ہے خداؤں کا صحرا کا خار خار ہے محروم تشنگی کتنا ستم ظریف وہ چھالا تھا پاؤں کا سر رکھ ...

    مزید پڑھیے

    نشے میں جو ہے کہنہ شرابوں سے زیادہ

    نشے میں جو ہے کہنہ شرابوں سے زیادہ اس جسم کی خوشبو ہے گلابوں سے زیادہ اک قطرۂ شبنم کو ترستے ہیں گلستاں یہ فصل تو ممسک ہے سرابوں سے زیادہ پڑھنا ہے تو انسان کو پڑھنے کا ہنر سیکھ ہر چہرے پہ لکھا ہے کتابوں سے زیادہ پہنچا ہوں وہیں پر کہ چلا تھا میں جہاں سے ہستی کا سفر بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    یوں لگتا ہے جیسے ہم دریا کے رخ پر رہتے ہیں

    یوں لگتا ہے جیسے ہم دریا کے رخ پر رہتے ہیں اس کی اندھی لہروں کے قاتل دھارے پر بہتے ہیں صدیوں کی تاریخ یہاں قرطاس ہوا پر لکھی ہے قرنوں کے افسانے ہم سے کوہ و بیاباں کہتے ہیں وقت سے پہلے بچوں نے چہروں پہ بڑھاپا اوڑھ لیا تتلی بن کر اڑنے والے سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں جب سے اندھی ظلمت نے ...

    مزید پڑھیے

    میں کہ اب تیری ہی دیوار کا اک سایا ہوں

    میں کہ اب تیری ہی دیوار کا اک سایا ہوں کتنے بے خواب دریچوں سے گزر آیا ہوں مجھ کو احساس ہے حالات کی مجبوری کا بے وفا کہہ کے تجھے آپ بھی شرمایا ہوں مجھ کو مت دیکھ مرے ذوق سماعت کو تو دیکھ کہ ترے جسم کی ہر تان پہ لہرایا ہوں اے مورخ مری اجڑی ہوئی صورت پہ نہ جا شہر ویراں ہوں مگر وقت کا ...

    مزید پڑھیے

    ہم وقت کے ہم سفر ہی ٹھہرے

    ہم وقت کے ہم سفر ہی ٹھہرے کب تک کوئی اپنے گھر ہی ٹھہرے ہے کوکھ کوئی صدف نہیں ہے لازم تو نہیں گہر ہی ٹھہرے جی لیں گے وو لمحہ اوڑھ کر ہم اے کاش وو لمحہ بھر ہی ٹھہرے اونچی تھیں اڑانیں جن کی وہ بھی زندگیٔ بام و در ہی ٹھہرے اس شہر میں زندگی گراں ہے جو ٹھہرے وہ دار پر ہی ٹھہرے سورج ...

    مزید پڑھیے

    جبیں کا چاند بنوں آنکھ کا ستارا بنوں

    جبیں کا چاند بنوں آنکھ کا ستارا بنوں کسی جمال شفق تاب کا سہارا بنوں محبتوں کی شکستوں کا اک خرابہ ہوں خدارا مجھ کو گراؤ کہ میں دوبارا بنوں یہ بھیگی بھیگی ہواؤں میں سرد سرد مہک جو دل کی آگ میں اترے تو کچھ گوارا بنوں ہر ایک غنچہ دہن کا یہی تقاضا ہے جمالیات کا میں آخری شمارہ ...

    مزید پڑھیے

    کوئی منظر بھی سہانا نہیں رہنے دیتے

    کوئی منظر بھی سہانا نہیں رہنے دیتے آنکھ میں رنگ تماشا نہیں رہنے دیتے چہچہاتے ہوئے پنچھی کو اڑا دیتے ہیں کسی سر میں کوئی سودا نہیں رہنے دیتے روشنی کا کوئی پرچم جو اٹھا کر نکلے اس طرح دار کو زندہ نہیں رہنے دیتے کیا زمانہ ہے یہ کیا لوگ ہیں کیا دنیا ہے جیسا چاہے کوئی ویسا نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4