Farigh Bukhari

فارغ بخاری

فارغ بخاری کی غزل

    یادوں کا عجیب سلسلہ ہے

    یادوں کا عجیب سلسلہ ہے سویا ہوا درد جاگ اٹھا ہے مٹ بھی چکے نقش پا مگر دل مہکی ہوئی چاپ سن رہا ہے جلتی ہوئی منزلوں کا راہی اب اپنا ہی سایہ ڈھونڈھتا ہے دیواریں کھڑی ہوئی ہیں لیکن اندر سے مکان گر رہا ہے پوچھے ہے چٹک کے غنچۂ زخم اے اجنبی تیرا نام کیا ہے سوچوں کے اتھاہ پانیوں ...

    مزید پڑھیے

    مسیح وقت سہی ہم کو اس سے کیا لینا

    مسیح وقت سہی ہم کو اس سے کیا لینا کبھی ملے بھی تو کچھ درد دل بڑھا لینا ہزار ترک وفا کا خیال ہو لیکن جو روبرو ہوں تو بڑھ کر گلے لگا لینا کسی کو چوٹ لگے اپنے دل کو خوں کرنا زمانے بھر کے غموں کو گلے لگا لینا خمار ٹوٹے تو کیسے کہ ہم نے سیکھ لیا جو تو نہ ہو تو تری یاد سے نشہ لینا سفینہ ...

    مزید پڑھیے

    دو گھڑی بیٹھے تھے زلف عنبریں کی چھاؤں میں

    دو گھڑی بیٹھے تھے زلف عنبریں کی چھاؤں میں چبھ گیا کانٹا دل حسرت زدہ کے پاؤں میں کم نہیں ہیں جب کہ شہروں میں بھی کچھ ویرانیاں کس توقع پر کوئی جائے گا اب صحراؤں میں کچی کلیاں پکی فصلیں سر چھپائیں گی کہاں آگ شہروں کی لپک کر آ رہی ہے گاؤں میں زخم نظارا ہیں جسموں کی برہنہ ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں سلیقہ نہ آیا جہاں میں جینے کا

    ہمیں سلیقہ نہ آیا جہاں میں جینے کا کبھی کیا نہ کوئی کام بھی قرینے کا تمہارے ساتھ ہی اس کو بھی ڈوب جانا ہے یہ جانتا ہے مسافر ترے سفینے کا کچھ اس کا ساتھ نبھانا محال تھا یوں بھی ہمارا اپنا تھا انداز ایک جینے کا سخاوتوں نے گہرساز کر دیا ہے انہیں کوئی صدف نہیں محتاج آبگینے کا

    مزید پڑھیے

    دیکھے کوئی جو چاک گریباں کے پار بھی

    دیکھے کوئی جو چاک گریباں کے پار بھی آئینۂ خزاں میں ہے عکس بہار بھی اب ہر نفس ہے بھیگی صداؤں کی اک فصیل موج ہوس تھی گردش لیل و نہار بھی کیا شورش جنوں ہے ذرا کم نہیں ہوا قربت کے باوجود ترا انتظار بھی کتنی عقیدتوں کے جگر چاک ہو گئے کیا سحر تھا شعور نظر کا خمار بھی جو عرش و فرش پر ...

    مزید پڑھیے

    کتنے شکوے گلے ہیں پہلے ہی

    کتنے شکوے گلے ہیں پہلے ہی راہ میں فاصلے ہیں پہلے ہی کچھ تلافی نگار فصل خزاں ہم لٹے قافلے ہیں پہلے ہی اور لے جائے گا کہاں گلچیں سارے مقتل کھلے ہیں پہلے ہی اب زباں کاٹنے کی رسم نہ ڈال کہ یہاں لب سلے ہیں پہلے ہی اور کس شئے کی ہے طلب فارغؔ درد کے سلسلے ہیں پہلے ہی

    مزید پڑھیے

    خرد بھی نا مہرباں رہے گی شعور بھی سر گراں رہے گا

    خرد بھی نا مہرباں رہے گی شعور بھی سر گراں رہے گا ان آندھیوں میں مرا جنون وفا مگر ضو فشاں رہے گا بدل سکے گی نہ فطرت سرکشی کو یہ گردش زمانہ ازل سے جو آسماں بنا ہے ابد تلک آسماں رہے گا الجھ الجھ کر مجھے حوادث کی تند لہروں سے کھیلنے دو فسردہ ساحل کا خشک ماحول مجھ کو بار گراں رہے ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک راستے کا ہم سفر رہا ہوں میں

    ہر ایک راستے کا ہم سفر رہا ہوں میں تمام عمر ہی آشفتہ سر رہا ہوں میں قدم قدم پہ وہاں قربتیں تھیں اور یہاں ہجوم شہر سے تنہا گزر رہا ہوں میں پکارا جب مجھے تنہائی نے تو یاد آیا کہ اپنے ساتھ بہت مختصر رہا ہوں میں یہ کیسی رفعتیں آئینۂ نگاہ میں ہیں کسی ستارے پہ جیسے اتر رہا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    کیا عدو کیا دوست سب کو بھا گئیں رسوائیاں

    کیا عدو کیا دوست سب کو بھا گئیں رسوائیاں کون آ کر ناپتا احساس کی پہنائیاں اب کسی موسم کی بے رحمی کا کوئی غم نہیں ہم نے آنکھوں میں سجائی ہیں تری انگڑائیاں آپ کیا آئے بہاروں کے دریچے کھل گئے خوشبوؤں میں بس گئیں ترسی ہوئی تنہائیاں چاند بن کر کون اترا ہے قبائے جسم میں جاگ اٹھی ہیں ...

    مزید پڑھیے

    اپنے ہی سائے میں تھا میں شاید چھپا ہوا

    اپنے ہی سائے میں تھا میں شاید چھپا ہوا جب خود ہی ہٹ گیا تو کہیں راستہ ملا جلتے رہے ہیں اپنے ہی دوزخ میں رات دن ہم سے زیادہ کوئی ہمارا عدو نہ تھا دیکھا نہ پھر پلٹ کے کسی شہسوار نے میں ہر صدا کا نقش قدم کھوجتا رہا دیوار پھاند کر نہ یہاں آئے گا کوئی رہنے دو زخم دل کا دریچہ کھلا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4