یادوں کا عجیب سلسلہ ہے
یادوں کا عجیب سلسلہ ہے سویا ہوا درد جاگ اٹھا ہے مٹ بھی چکے نقش پا مگر دل مہکی ہوئی چاپ سن رہا ہے جلتی ہوئی منزلوں کا راہی اب اپنا ہی سایہ ڈھونڈھتا ہے دیواریں کھڑی ہوئی ہیں لیکن اندر سے مکان گر رہا ہے پوچھے ہے چٹک کے غنچۂ زخم اے اجنبی تیرا نام کیا ہے سوچوں کے اتھاہ پانیوں ...