میں کہ اب تیری ہی دیوار کا اک سایا ہوں
میں کہ اب تیری ہی دیوار کا اک سایا ہوں
کتنے بے خواب دریچوں سے گزر آیا ہوں
مجھ کو احساس ہے حالات کی مجبوری کا
بے وفا کہہ کے تجھے آپ بھی شرمایا ہوں
مجھ کو مت دیکھ مرے ذوق سماعت کو تو دیکھ
کہ ترے جسم کی ہر تان پہ لہرایا ہوں
اے مورخ مری اجڑی ہوئی صورت پہ نہ جا
شہر ویراں ہوں مگر وقت کا سرمایہ ہوں
روشنی پھیل گئی ہے مری خوشبو کی طرح
میں بھی جلتے ہوئے صحراؤں کا ہم سایا ہوں
ہم سفر لاکھ مری راہ کا پتھر بھی بنے
پھر بھی ذہنوں کے در و بام پہ لہرایا ہوں
نئی منزل کا جنوں تہمت گمراہی ہے
پا شکستہ بھی تری راہ میں کہلایا ہوں
پھر نمو پائی ہے اک درد خوش آغاز کے ساتھ
دہر میں جرأت اظہار کا پیرایہ ہوں
عمر بھر بت شکنی کرتا رہا آج مگر
اپنی ہی ذات کے کہسار سے ٹکرایا ہوں
دہر میں عظمت آدم کا نشاں ہوں فارغؔ
کبھی کہسار کبھی دار پہ لہرایا ہوں