Farigh Bukhari

فارغ بخاری

فارغ بخاری کی غزل

    چاندنی نے رات کا موسم جواں جیسے کیا

    چاندنی نے رات کا موسم جواں جیسے کیا ہم نے بھی چہرہ فروزاں شیشۂ مے سے کیا پاس خودداری تو ہے لیکن وفا دشمن نہیں تم نے ہم پر ترک الفت کا گماں کیسے کیا ہم گناہوں کی شریعت سے ہوئے جب آشنا جسم نے جو فیصلہ جیسے دیا ویسے کیا اس لیے اب ڈوبنے کے خوف سے ہیں بے نیاز ہم نے آغاز سفر دریاؤں کی ...

    مزید پڑھیے

    میں شعلۂ اظہار ہوں کوتاہ ہوں قد تک

    میں شعلۂ اظہار ہوں کوتاہ ہوں قد تک وسعت مری دیکھو تو ہے دیوار ابد تک ماحول میں سب گھولتے ہیں اپنی سیاہی رخ ایک ہی تصویر کے ہیں نیک سے بد تک کچھ فاصلے ایسے ہیں جو طے ہو نہیں سکتے جو لوگ کہ بھٹکے ہیں وہ بھٹکیں گے ابد تک کب تک کوئی کرتا پھرے کرنوں کی گدائی ظلمت کی کڑی دھوپ تو ڈستی ...

    مزید پڑھیے

    یادوں کا عجیب سلسلہ ہے

    یادوں کا عجیب سلسلہ ہے سویا ہوا درد جاگ اٹھا ہے مٹ بھی چکے نقش پا مگر دل مہکی ہوئی چاپ سن رہا ہے دیواریں کھڑی ہوئی ہیں لیکن اندر سے مکان گر رہا ہے پوچھے ہے چٹک کے غنچۂ زخم اے اجنبی تیرا نام کیا ہے کس شعلہ بدن کی یاد آئی دامان خیال جل اٹھا ہے سوچا ہے یہ میں نے پی کے اکثر نشے میں ...

    مزید پڑھیے

    اس اوج پر نہ اچھالو مجھے ہوا کر کے

    اس اوج پر نہ اچھالو مجھے ہوا کر کے کہ میں جہاں سے ہوں اترا خدا خدا کر کے ازل سے مجھ سے ہے وابستہ خیر و شر کا نظام نہ دیکھو مجھ کو مری ذات سے جدا کر کے میں جانتا ہوں مقفل ہیں سارے دروازے مجھے یہ ضد ہے کہ گزروں مگر صدا کر کے میں اپنے دور کے اس کرب کا ہوں آئینہ جو پیش رو ہوئے رخصت ...

    مزید پڑھیے

    کچھ نہیں گرچہ تری راہ گزر سے آگے

    کچھ نہیں گرچہ تری راہ گزر سے آگے دیکھنا کفر نہیں حد نظر سے آگے خود فریبی کے لیے گرم سفر ہیں ورنہ کیا ہے منزل کے سوا گرد سفر سے آگے میرا افلاک بھی تسکین نظر ہو نہ سکا تھے وہی شمس و قمر شمس و قمر سے آگے زندگی وقت کی دیواروں میں محبوس رہی کوئی پردہ نہ اٹھا شام و سحر سے آگے آج کے دور ...

    مزید پڑھیے

    وہ روز و شب بھی نہیں ہیں وہ رنگ و بو بھی نہیں

    وہ روز و شب بھی نہیں ہیں وہ رنگ و بو بھی نہیں وہ بزم جام و سبو بھی نہیں وہ تو بھی نہیں نہ دل دھڑکتے ہیں مل کر نہ آنکھیں جھکتی ہیں لہو کی گردشیں اب مثل آب جو بھی نہیں کبھی کبھی کی ملاقات تھی سو وہ بھی گئی تری نگاہ کا رنگ بہانہ جو بھی نہیں کب آفتاب ڈھلے اور چاندنی چھٹکے کسی کو اب یہ ...

    مزید پڑھیے

    حواس لوٹ لیے شورش تمنا نے

    حواس لوٹ لیے شورش تمنا نے ہری رتوں کے لیے بن گئے ہیں دیوانے بدلتے دیر نہیں لگتی اب حقیقت کو جو کل کی باتیں ہیں وہ آج کے ہیں افسانے ہے اب تو قطع تعلق کی ایک ہی صورت خدا کرے تو ہمیں دیکھ کر نہ پہچانے جو تیرے کوچے سے نکلے تو اک تماشہ تھے عجیب نظروں سے دیکھا ہے ہم کو دنیا نے سفر میں ...

    مزید پڑھیے

    کون وہ باتیں سنتا ہے جو فصل جنوں کے باب میں ہیں

    کون وہ باتیں سنتا ہے جو فصل جنوں کے باب میں ہیں کس کس کو بیدار کروں سب سورج میرے خواب میں ہیں بپھرے پانی کی موجیں ہر گھر کی چھت پہ رقصاں ہیں خیر مناؤں کس کس کی سب شہر مرے سیلاب میں ہیں چونا گچ دیواروں میں جھانکو تو خرابے پاؤ گے میری طرح کتنے ہی یہاں سقراط مرے احباب میں ہیں کس ...

    مزید پڑھیے

    اظہار عقیدت میں کہاں تک نکل آئے

    اظہار عقیدت میں کہاں تک نکل آئے ہم اہل یقیں وہم و گماں تک نکل آئے شاداب بہاروں کے تمنائی کہاں ہیں موسم کے قدم زخم خزاں تک نکل آئے یہ کیسا الم ہے کہ گریباں ہو سلامت اور آنکھوں سے خوں بھی رگ جاں تک نکل آئے کب نکلے گی دیوانوں کی بارات گھروں سے سینوں میں بغاوت کے نشاں تک نکل ...

    مزید پڑھیے

    رنگ در رنگ حجابات اٹھانے ہوں گے

    رنگ در رنگ حجابات اٹھانے ہوں گے بے محابا ہمیں سب جلوے دکھانے ہوں گے جن کو تاریخ کی نظریں بھی کبھی چھو نہ سکیں بطن گیتی میں کئی ایسے زمانے ہوں گے آج تک شاہوں کی تحویل میں جو آ نہ سکے سیکڑوں ایسے پر اسرار خزانے ہوں گے پشت ہا پشت سے جو دست نگر رہتے ہیں ان گنت ایسے بھی مظلوم گھرانے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4