کون وہ باتیں سنتا ہے جو فصل جنوں کے باب میں ہیں
کون وہ باتیں سنتا ہے جو فصل جنوں کے باب میں ہیں
کس کس کو بیدار کروں سب سورج میرے خواب میں ہیں
بپھرے پانی کی موجیں ہر گھر کی چھت پہ رقصاں ہیں
خیر مناؤں کس کس کی سب شہر مرے سیلاب میں ہیں
چونا گچ دیواروں میں جھانکو تو خرابے پاؤ گے
میری طرح کتنے ہی یہاں سقراط مرے احباب میں ہیں
کس کوفی نے خط کے پہرے لگائے ہیں پڑھتی آنکھوں پر
کتنے ہی مفہوم ابھی تک لفظوں کے گرداب میں ہیں
جن صدموں سے گزرے ہیں یہ کب کے ٹوٹ گئے ہوتے
یوں لگتا ہے جیسے کوئی فولاد مرے اعصاب میں ہیں
پتھر دیس میں کس کو سنائے جا کے کوئی فریاد اپنی
جانے کتنے حشر بپا فارغؔ کے دل بیتاب میں ہیں