فرحت زاہد کی غزل

    جذبوں کی ہر ایک کلی اندھی نکلی

    جذبوں کی ہر ایک کلی اندھی نکلی اور محبت اس سے بھی پگلی نکلی میں بھی توڑ نہیں پائی جھوٹی رسمیں میں بھی بس اک معمولی لڑکی نکلی تم مجھ سے نفرت کیسے کر پاؤ گے میں تو اپنے جھوٹ میں بھی سچی نکلی وہ گھر جو اجلا اجلا سا لگتا تھا جھاڑا پونچھا تو کتنی مٹی نکلی سوچا تھا اس سے ہر بات ...

    مزید پڑھیے

    کسی تیز جھونکے کے سنگ تھی مری اوڑھنی

    کسی تیز جھونکے کے سنگ تھی مری اوڑھنی کبھی سر پہ تھی کبھی اڑ گئی مری اوڑھنی وہ جو زخم خوردہ سی وحشتیں تھی نگاہ میں انہیں اپنے پلو سے جوڑتی مری اوڑھنی کوئی سائباں جو دعا سا تھا مری راہ میں وہ نہیں رہا تو کہاں رہی مری اوڑھنی وہ سنبھل سنبھل کے اٹھا رہی ہے ہر اک قدم مری لاڈلی نے جو ...

    مزید پڑھیے

    اس کی خاطر رونا ہنسنا اچھا لگتا ہے

    اس کی خاطر رونا ہنسنا اچھا لگتا ہے جیسے دھوپ میں بارش ہونا اچھا لگتا ہے خواب کی کچی ململ میں جب آنکھیں لپٹی ہوں یادیں اوڑھ کے سوتے رہنا اچھا لگتا ہے سانجھ سویرے کھلتے ہیں جب تیتریوں کے پر اس منظر میں منظر ہونا اچھا لگتا ہے بارش آ کر برس رہے گی موسم آنے پر پھر بھی اپنا درد ...

    مزید پڑھیے

    خوشبو کی طرح ملتا ہے وعدہ نہیں کرتا

    خوشبو کی طرح ملتا ہے وعدہ نہیں کرتا موسم کا پرندہ ہے ٹھکانا نہیں کرتا وہ عشق میں شعلوں کا طلب گار ہے لیکن اس آگ میں مر جانے کا سودا نہیں کرتا وہ پچھلی محبت میں مرے دل کا خسارہ اسباب دروں وہ کبھی پوچھا نہیں کرتا کرتا ہے ہر اک رنگ کی چڑیوں سے وہ باتیں پہنائی میں دل کی کبھی اترا ...

    مزید پڑھیے

    تھکن سے چور ہیں اور گرد سے اٹے ہیں ہم

    تھکن سے چور ہیں اور گرد سے اٹے ہیں ہم نظر اٹھا کہ تری سمت دیکھتے ہیں ہم وہی چراغ وہی میں وہی فسوں تیرا ہر ایک بار یوں ہی تجھ کو چاہتے ہیں ہم ترے خیال کی خوشبو اداس کرتی ہے ترے سراب کی وادی میں گونجتے ہیں ہم یہ اور بات ترے ساتھ دن گزرتا ہے یہ اور بات تری نیند میں رہے ہیں ہم کبھی ...

    مزید پڑھیے

    عجیب رت ہے یہ ہجر و وصال سے آگے

    عجیب رت ہے یہ ہجر و وصال سے آگے کمال ہونے لگا ہے کمال سے آگے وہ ایک لمحہ جو تتلی سا اپنے بیچ میں ہے اسے میں لے کے چلی ماہ و سال سے آگے کوئی جواز ہو ہمدم اب اس رفاقت کا تلاش کر مجھے میرے جمال سے آگے جواب خواب بھلا خواب کے سوا کیا ہے مگر وہ نکلا نہیں ہے سوال سے آگے پگھل رہا ہے مرا ...

    مزید پڑھیے

    خون میں ڈوبی ردائیں نہیں دیکھی جاتیں

    خون میں ڈوبی ردائیں نہیں دیکھی جاتیں بین کرتی ہوئی مائیں نہیں دیکھی جاتیں ختم ہوتے ہوئے آنسو ہوں کہ تھمتا ہوا درد ہم سے اب اور سزائیں نہیں دیکھی جاتیں جانے والوں کا بھلا کیسے تمہیں دیں پرسا خالی ہاتھوں کی دعائیں نہیں دیکھی جاتیں مرنے والوں کی صدائیں تو میں سن سکتی ہوں جینے ...

    مزید پڑھیے

    سونے ہمیں کب دیتی ہے آواز کسی کی

    سونے ہمیں کب دیتی ہے آواز کسی کی خوابوں میں بھی در آئی ہے آواز کسی کی جب دور جزیروں پہ کوئی جا بسے اپنا لہروں پہ سفر کرتی ہے آواز کسی کی اٹھتے ہیں قدم جب بھی کسی دشت کی جانب قدموں کو جکڑ لیتی ہے آواز کسی کی یہ لوگ تماشائی ہیں بس گیت سنیں گے کیا ان کو جو بھر آئی ہے آواز کسی ...

    مزید پڑھیے

    خشک آنگن میں تھی نمی لڑکی

    خشک آنگن میں تھی نمی لڑکی عمر بھر سوچتی رہی لڑکی اس کی سیرت پہ کوئی بھی نہ گیا صورتاً سانولی سی تھی لڑکی اس کے اندر کا مرد جاگ اٹھا جب بھی تنہائی میں ملی لڑکی کچے رستوں سے آشنا کب تھی بارشوں میں دھلی ہوئی لڑکی وہ تو منزل کو پا چکا ہوگا راستوں میں بکھر گئی لڑکی وہ جو سب کو فریب ...

    مزید پڑھیے

    آنچ تو دئے کی تھی سردیوں کی شاموں میں

    آنچ تو دئے کی تھی سردیوں کی شاموں میں ورنہ دھوپ کب اتری سردیوں کی شاموں میں ہاتھ سے کبوتر تو پھر اڑا دیا میں نے رہ گئی ہے تنہائی سردیوں کی شاموں میں ہجر اور ہجرت کو اوڑھ کر بھی دیکھا ہے سانس تک نہ چلتی تھی سردیوں کی شاموں میں سرد گرم لمحوں کی آگ تاپتے تھے ہم وہ جو اک رسوئی تھی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2