سونے ہمیں کب دیتی ہے آواز کسی کی

سونے ہمیں کب دیتی ہے آواز کسی کی
خوابوں میں بھی در آئی ہے آواز کسی کی


جب دور جزیروں پہ کوئی جا بسے اپنا
لہروں پہ سفر کرتی ہے آواز کسی کی


اٹھتے ہیں قدم جب بھی کسی دشت کی جانب
قدموں کو جکڑ لیتی ہے آواز کسی کی


یہ لوگ تماشائی ہیں بس گیت سنیں گے
کیا ان کو جو بھر آئی ہے آواز کسی کی


آنکھوں میں پلٹ آتی ہے تصویر پرائی
میرے لیے بینائی ہے آواز کسی کی


صدیوں سے یہاں بیٹھے ہیں ہم گوش بر آواز
اب تک تو نہیں آئی ہے آواز کسی کی