فرحت زاہد کی نظم

    سن حوا کی بیٹی

    کوئی دن ایسا بھی آیا کیا تم جی پائی ہو اپنے لیے تم مر پائی ہو اپنے لیے کبھی کھل کر ہنسنا سیکھا ہو کسی خواب کو چھو کر دیکھا ہو جاگی ہو اپنی صبحوں میں کبھی سوئی اپنی آنکھ سے تم ڈالی ہو اپنی جھولی میں کبھی چاہت اپنے حصے کی کبھی تنہائی کے پیالے میں کوئی لمحہ امرت جیسا بھی کبھی روح کے ...

    مزید پڑھیے

    یادیں

    چھوٹے چھوٹے تہواروں کی کیسی خوشیاں تھیں ہم پھلجڑیاں لے کر صحن میں بھاگے پھرتے تھے شب برات پہ میں نے بھی مانگی تھی ایک دعا اس کے ہونٹوں پر بھی کتنے حرف سنہرے تھے گرمی کی تپتی دوپہریں اور پیپل کا پیڑ میری دکھتی آنکھوں میں سکھ چین اترتے تھے اک جیسی بے مقصد سوچیں اک جیسے ...

    مزید پڑھیے