تھکن سے چور ہیں اور گرد سے اٹے ہیں ہم

تھکن سے چور ہیں اور گرد سے اٹے ہیں ہم
نظر اٹھا کہ تری سمت دیکھتے ہیں ہم


وہی چراغ وہی میں وہی فسوں تیرا
ہر ایک بار یوں ہی تجھ کو چاہتے ہیں ہم


ترے خیال کی خوشبو اداس کرتی ہے
ترے سراب کی وادی میں گونجتے ہیں ہم


یہ اور بات ترے ساتھ دن گزرتا ہے
یہ اور بات تری نیند میں رہے ہیں ہم


کبھی کبھی تو یوں رستے میں شام ہوتی ہے
کہ حوصلوں کی طرح خود میں ٹوٹتے ہیں ہم