خوشبو کی طرح ملتا ہے وعدہ نہیں کرتا
خوشبو کی طرح ملتا ہے وعدہ نہیں کرتا
موسم کا پرندہ ہے ٹھکانا نہیں کرتا
وہ عشق میں شعلوں کا طلب گار ہے لیکن
اس آگ میں مر جانے کا سودا نہیں کرتا
وہ پچھلی محبت میں مرے دل کا خسارہ
اسباب دروں وہ کبھی پوچھا نہیں کرتا
کرتا ہے ہر اک رنگ کی چڑیوں سے وہ باتیں
پہنائی میں دل کی کبھی اترا نہیں کرتا
اس شہر میں جینے کی ادا سیکھ رہی ہوں
بیتے ہوئے کل پر یہ گزارا نہیں کرتا