فرحت زاہد کے تمام مواد

19 غزل (Ghazal)

    جذبوں کی ہر ایک کلی اندھی نکلی

    جذبوں کی ہر ایک کلی اندھی نکلی اور محبت اس سے بھی پگلی نکلی میں بھی توڑ نہیں پائی جھوٹی رسمیں میں بھی بس اک معمولی لڑکی نکلی تم مجھ سے نفرت کیسے کر پاؤ گے میں تو اپنے جھوٹ میں بھی سچی نکلی وہ گھر جو اجلا اجلا سا لگتا تھا جھاڑا پونچھا تو کتنی مٹی نکلی سوچا تھا اس سے ہر بات ...

    مزید پڑھیے

    کسی تیز جھونکے کے سنگ تھی مری اوڑھنی

    کسی تیز جھونکے کے سنگ تھی مری اوڑھنی کبھی سر پہ تھی کبھی اڑ گئی مری اوڑھنی وہ جو زخم خوردہ سی وحشتیں تھی نگاہ میں انہیں اپنے پلو سے جوڑتی مری اوڑھنی کوئی سائباں جو دعا سا تھا مری راہ میں وہ نہیں رہا تو کہاں رہی مری اوڑھنی وہ سنبھل سنبھل کے اٹھا رہی ہے ہر اک قدم مری لاڈلی نے جو ...

    مزید پڑھیے

    اس کی خاطر رونا ہنسنا اچھا لگتا ہے

    اس کی خاطر رونا ہنسنا اچھا لگتا ہے جیسے دھوپ میں بارش ہونا اچھا لگتا ہے خواب کی کچی ململ میں جب آنکھیں لپٹی ہوں یادیں اوڑھ کے سوتے رہنا اچھا لگتا ہے سانجھ سویرے کھلتے ہیں جب تیتریوں کے پر اس منظر میں منظر ہونا اچھا لگتا ہے بارش آ کر برس رہے گی موسم آنے پر پھر بھی اپنا درد ...

    مزید پڑھیے

    خوشبو کی طرح ملتا ہے وعدہ نہیں کرتا

    خوشبو کی طرح ملتا ہے وعدہ نہیں کرتا موسم کا پرندہ ہے ٹھکانا نہیں کرتا وہ عشق میں شعلوں کا طلب گار ہے لیکن اس آگ میں مر جانے کا سودا نہیں کرتا وہ پچھلی محبت میں مرے دل کا خسارہ اسباب دروں وہ کبھی پوچھا نہیں کرتا کرتا ہے ہر اک رنگ کی چڑیوں سے وہ باتیں پہنائی میں دل کی کبھی اترا ...

    مزید پڑھیے

    تھکن سے چور ہیں اور گرد سے اٹے ہیں ہم

    تھکن سے چور ہیں اور گرد سے اٹے ہیں ہم نظر اٹھا کہ تری سمت دیکھتے ہیں ہم وہی چراغ وہی میں وہی فسوں تیرا ہر ایک بار یوں ہی تجھ کو چاہتے ہیں ہم ترے خیال کی خوشبو اداس کرتی ہے ترے سراب کی وادی میں گونجتے ہیں ہم یہ اور بات ترے ساتھ دن گزرتا ہے یہ اور بات تری نیند میں رہے ہیں ہم کبھی ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    سن حوا کی بیٹی

    کوئی دن ایسا بھی آیا کیا تم جی پائی ہو اپنے لیے تم مر پائی ہو اپنے لیے کبھی کھل کر ہنسنا سیکھا ہو کسی خواب کو چھو کر دیکھا ہو جاگی ہو اپنی صبحوں میں کبھی سوئی اپنی آنکھ سے تم ڈالی ہو اپنی جھولی میں کبھی چاہت اپنے حصے کی کبھی تنہائی کے پیالے میں کوئی لمحہ امرت جیسا بھی کبھی روح کے ...

    مزید پڑھیے

    یادیں

    چھوٹے چھوٹے تہواروں کی کیسی خوشیاں تھیں ہم پھلجڑیاں لے کر صحن میں بھاگے پھرتے تھے شب برات پہ میں نے بھی مانگی تھی ایک دعا اس کے ہونٹوں پر بھی کتنے حرف سنہرے تھے گرمی کی تپتی دوپہریں اور پیپل کا پیڑ میری دکھتی آنکھوں میں سکھ چین اترتے تھے اک جیسی بے مقصد سوچیں اک جیسے ...

    مزید پڑھیے