رگ و پے میں سرایت کر گیا وہ
رگ و پے میں سرایت کر گیا وہ مجھی کو مجھ سے رخصت کر گیا وہ نہ ٹھہرا کوئی موسم وصل جاں کا متعین راہ فرقت کر گیا وہ من و تو کی گری دیوار سر پر بیاں کیسی حقیقت کر گیا وہ درون خانہ سے غافل ہے لیکن برون خانہ زینت کر گیا وہ سر شب ہی میں اکثر جل بجھا ہوں ہر اک خواہش کو لت پت کر گیا ...