فراست رضوی کی غزل

    نقد جاں کی مرے سوغات ابھی باقی ہے

    نقد جاں کی مرے سوغات ابھی باقی ہے شب ہجراں کی مدارات ابھی باقی ہے دھوپ میں ترک مراسم کی جھلسنے والے آخری شام ملاقات ابھی باقی ہے خالق کون و مکاں ہم سے نہیں ہے ناراض گردش ارض و سماوات ابھی باقی ہے وقت کی دھوپ میں کھوئے مرے نشے کتنے اک تری چشم خرابات ابھی باقی ہے روز اول سے اجل ...

    مزید پڑھیے

    دکھوں کے پھول تو ہیں زخم تو ہے داغ تو ہے

    دکھوں کے پھول تو ہیں زخم تو ہے داغ تو ہے ہرا بھرا مرے سینے میں کوئی باغ تو ہے نہیں ہے وصل مگر خواب وصل بھی ہے بہت ذرا سی دیر غم ہجر سے فراغ تو ہے بہت اجاڑے سہی عمر کی سرائے مگر شکستہ طاق میں اک یاد کا چراغ تو ہے میں تشنگی کا گلا کیا کروں کہ صورت دل لہو کی مے سے چھلکتا ہوا ایاغ تو ...

    مزید پڑھیے

    آنکھیں جہاں ہوں بند اندھیرا وہیں سے ہے

    آنکھیں جہاں ہوں بند اندھیرا وہیں سے ہے جاگے ہیں ہم جہاں سے سویرا وہیں سے ہے جس جا سے ہے شروع مرا کنج آرزو سایہ بھی نخل غم کا گھنیرا وہیں سے ہے اجڑا ہوا وہ باغ جہاں ہم جدا ہوئے آسیب غم کا دل پہ بسیرا وہیں سے ہے دور اک چراغ کشتہ پڑا ہے زمین پر شاید ستم کی رات کا ڈیرا وہیں سے ہے

    مزید پڑھیے

    جنہیں محفلوں سے غرض نہ تھی وہ جو قید اپنے گھروں میں تھے

    جنہیں محفلوں سے غرض نہ تھی وہ جو قید اپنے گھروں میں تھے وہی اعتبار زمانہ تھے وہی لوگ دیدہ وروں میں تھے ہوئے ہاتھ اب تو لہو لہو سر چشم اندھیرا ہے چار سو کبھی ہم بھی آئنہ ساز تھے کبھی ہم بھی شیشہ گروں میں تھے چلی شہر میں وہ ہوائے زر کہ غبار بن کے گئے بکھر وہ جو خواب آنکھوں میں تھے ...

    مزید پڑھیے

    شام بے مہر میں اک یاد کا جگنو چمکا

    شام بے مہر میں اک یاد کا جگنو چمکا اور پھر ایک ہی چہرہ تھا کہ ہر سو چمکا اے چراغ نگۂ یار میں جاں سے گزرا اب مجھے کیا جو پئے دل زدگاں تو چمکا روز ملتے تھے تو بے رنگ تھا تیرا ملنا دور رہنے سے ترے قرب کا جادو چمکا دل میں پھر بجھنے لگا ضبط کا تارا کوئی پھر مری نوک مژہ پر کوئی آنسو ...

    مزید پڑھیے

    پوچھے جو نشاں کوئی انجان نکلتے ہیں

    پوچھے جو نشاں کوئی انجان نکلتے ہیں ہم راہ گزاروں سے بے دھیان نکلتے ہیں دل تازہ مراسم کے آغاز سے ڈرتا ہے ملنے سے بچھڑنے کے امکان نکلتے ہیں کس سمت کو جاتے ہیں اے راہ چمن آخر لشکر گل و نکہت کے ہر آن نکلتے ہیں گھر رہیے کہ باہر ہے اک رقص بلاؤں کا اس موسم وحشت میں نادان نکلتے ہیں تم ...

    مزید پڑھیے

    کسی کو کب وہ اپنے دل کا کچھ احوال دیتا ہے

    کسی کو کب وہ اپنے دل کا کچھ احوال دیتا ہے میں اس سے بات کرتا ہوں وہ مجھ کو ٹال دیتا ہے کوئی تو ہے جو اس حیرت سرائے نور و ظلمت میں ستارے کو ضیا آئینے کو تمثال دیتا ہے بہت انکار کرتا ہے سوال وصل پر لیکن خفا ہو جاؤں تو گردن میں بانہیں ڈال دیتا ہے کوئی چہروں کا سوداگر چھپا ہے اس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3