کسی کو کب وہ اپنے دل کا کچھ احوال دیتا ہے
کسی کو کب وہ اپنے دل کا کچھ احوال دیتا ہے
میں اس سے بات کرتا ہوں وہ مجھ کو ٹال دیتا ہے
کوئی تو ہے جو اس حیرت سرائے نور و ظلمت میں
ستارے کو ضیا آئینے کو تمثال دیتا ہے
بہت انکار کرتا ہے سوال وصل پر لیکن
خفا ہو جاؤں تو گردن میں بانہیں ڈال دیتا ہے
کوئی چہروں کا سوداگر چھپا ہے اس خرابے میں
پرانی صورتیں لے کر نئی اشکال دیتا ہے
میں جس لمحے گزرتے وقت کو محسوس کرتا ہوں
وہ اک لمحہ فراستؔ رنج ماہ و سال دیتا ہے