نقد جاں کی مرے سوغات ابھی باقی ہے
نقد جاں کی مرے سوغات ابھی باقی ہے
شب ہجراں کی مدارات ابھی باقی ہے
دھوپ میں ترک مراسم کی جھلسنے والے
آخری شام ملاقات ابھی باقی ہے
خالق کون و مکاں ہم سے نہیں ہے ناراض
گردش ارض و سماوات ابھی باقی ہے
وقت کی دھوپ میں کھوئے مرے نشے کتنے
اک تری چشم خرابات ابھی باقی ہے
روز اول سے اجل کھیل رہی ہے شطرنج
مجھ کو شہہ ہو بھی چکی مات ابھی باقی ہے
چاندنی پر ہے تمہیں رنگ سحر کا دھوکا
گل نہ کر دینا دیے رات ابھی باقی ہے
ہر غزل کی مجھے تکمیل پہ محسوس ہوا
دل میں کہنے کو کوئی بات ابھی باقی ہے