فراست رضوی کی غزل

    گئے دنوں کا حوالہ تھا کام کیا دیتا

    گئے دنوں کا حوالہ تھا کام کیا دیتا گزر گیا وہ جواب سلام کیا دیتا دیار شب سے بھی آگے مرا سفر تھا بہت سو میرا ساتھ وہ ماہ تمام کیا دیتا میں اس خرابۂ دل کے اجاڑ منظر میں کسی کو دعوت سیر و قیام کیا دیتا جو تو نہ آتا تو رنگ فسردگی کے سوا مری نگاہ کو یہ حسن شام کیا دیتا شکستہ پائی پہ ...

    مزید پڑھیے

    ملبوس غبار یاد رکھنا

    ملبوس غبار یاد رکھنا یہ راہ گزار یاد رکھنا اک شام خزاں یہیں کہیں ہے اے صبح بہار یاد رکھنا ہم کشتی عشق کے مسافر اترے نہیں پار یاد رکھنا اے زخمہ وران بربط دل ٹوٹے ہوئے تار یاد رکھنا پت جھڑ کی ہوائیں چیختی ہیں کیا صوت ہزار یاد رکھنا ہم جاتے ہیں بار غم اٹھائے اے شہر نگار یاد ...

    مزید پڑھیے

    یہ اشک آنکھ میں کس جستجو کے ساتھ آئے

    یہ اشک آنکھ میں کس جستجو کے ساتھ آئے کہ تیرے ذکر تری گفتگو کے ساتھ آئے میں ایک نخل تھا یک رنگی خزاں کا اسیر یہ سارے رنگ تری آرزو کے ساتھ آئے جو کھو گئے تھے کہیں عمر کے دھندلکوں میں وہ عکس پھر کسی آئینہ رو کے ساتھ آئے فروغ نشۂ مے سے بھی جی بہل نہ سکا بہت سے غم تھے جو موج سبو کے ...

    مزید پڑھیے

    کوئی رہزن نہ مسافر نہ شجر کی صورت

    کوئی رہزن نہ مسافر نہ شجر کی صورت دیکھ اس اجڑی ہوئی راہ گزر کی صورت جانے کب خانہ بدوشی کے یہ دن گزریں گے مدتیں ہو گئیں دیکھے ہوئے گھر کی صورت پہلے دکھ تھا کہ سر راہ گزر بیٹھے ہیں اب کوئی رنج نہیں رنج سفر کی صورت اپنے ہی عکس سے فرصت نہیں ملتی ورنہ آئنے میں ہے کہیں آئینہ گر کی ...

    مزید پڑھیے

    کھیل تھا اپنی انا کا عشق اسے سمجھا کیا

    کھیل تھا اپنی انا کا عشق اسے سمجھا کیا میں نے اپنے آپ سے کتنا بڑا دھوکا کیا عمر بھر کا ہم نفس اک پل میں رخصت ہو گیا اور میں خاموش اسے جاتے ہوئے دیکھا کیا اک ذرا سی بات پر روٹھا رہا وہ دیر تک مسکرا کے خود ہی پھر میری طرف چہرا کیا فکر کی لذت کے باعث ہیں مری ناکامیاں سب عمل کرتے رہے ...

    مزید پڑھیے

    ان آنکھوں کا مجھ سے کوئی وعدہ تو نہیں ہے

    ان آنکھوں کا مجھ سے کوئی وعدہ تو نہیں ہے تھوڑی سی محبت ہے زیادہ تو نہیں ہے اسلوب نظر سے مرا مفہوم نہ سمجھے وہ یار مرا اتنا بھی سادہ تو نہیں ہے آغاز جو کی میں نے نئی ایک محبت یہ پچھلی محبت کا اعادہ تو نہیں ہے سینے میں بجھا جاتا ہے دل میرا سر شام اس غم کا علاج آتش بادہ تو نہیں ...

    مزید پڑھیے

    دم بہ دم تغیر کے رنگ ہیں زمانے میں

    دم بہ دم تغیر کے رنگ ہیں زمانے میں کچھ کمی نہیں آتی درد کے خزانے میں غیر کی شکایت کیا شوق لذت غم سے میں بھی ہو گیا شامل اپنا دل دکھانے میں میرے چار جانب تھے خار زار نفرت کے عمر کٹ گئی میری راستہ بنانے میں وقت نے ان آنکھوں کے خواب ہی بدل ڈالے دیر ہو گئی تجھ کو میرے پاس آنے ...

    مزید پڑھیے

    دیکھتے جاتے ہیں نمناک ہوئے جاتے ہیں

    دیکھتے جاتے ہیں نمناک ہوئے جاتے ہیں کیا گلستاں خس و خاشاک ہوئے جاتے ہیں ایک اک کر کے وہ غم خوار ستارے میرے غم سر وسعت افلاک ہوئے جاتے ہیں خوش نہیں آیا خزاں کو مرا عریاں ہونا زرد پتے مری پوشاک ہوئے جاتے ہیں دیکھ کر قریۂ ویراں میں زمستاں کا چاند شام کے سائے الم ناک ہوئے جاتے ...

    مزید پڑھیے

    اسیر بزم ہوں خلوت کی جستجو میں ہوں

    اسیر بزم ہوں خلوت کی جستجو میں ہوں میں اپنے آپ سے ملنے کی آرزو میں ہوں مری سرشت میں رنگ بہار ہے لیکن بہت دنوں سے کسی باغ بے نمو میں ہوں تو مجھ کو بھول گیا ہے مگر مرے مطرب میں درد بن کے ترے نغمۂ‌‌ گلو میں ہوں خزاں رسیدہ کسی نخل نیم جاں کے تلے مجھے بھی دیکھ اسی شام زرد رو میں ...

    مزید پڑھیے

    وہ دن جو بیت گیا پھر کسی نے پایا نہیں

    وہ دن جو بیت گیا پھر کسی نے پایا نہیں کبھی کماں سے کوئی تیر جا کے آیا نہیں ٹھہر گیا ہے سر مرکز فلک سورج یہ وقت وہ ہے کہ دیوار میں بھی سایا نہیں یہ بے دلیٔ مسلسل یہ رنج نا معلوم تجھے بھلا کے بھی ہم نے تجھے بھلایا نہیں اسیر بزم اس آوارگی کو کم نہ سمجھ جو اپنے ساتھ گزارا وہ دن ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3