نصیب اب کے خوشی بے حساب لے آیا

نصیب اب کے خوشی بے حساب لے آیا
چراغ لینے گیا آفتاب لے آیا


ابھی جلا کے اٹھا ہوں پرانے خوابوں کو
وہ میرے واسطے پھر تازہ خواب لے آیا


پھر آج بھاؤ سمندر کا آسمان پہ تھا
پھر آج اپنے لئے میں سراب لے آیا


فسردہ دیکھ کے اس کو بہت پشیماں ہوں
میں ریگزار میں کیوں اک گلاب لے آیا


تجھے تو ہاں یا نہیں میں جواب دینا تھا
جواب میں تو مکمل کتاب لے آیا


ابھی چلا ہی تھا دل اک گناہ کرنے کو
کہ ذہن جا کے خیال عذاب لے آیا