مجھ میں سے رفتہ رفتہ گھٹاتا رہا مجھے

مجھ میں سے رفتہ رفتہ گھٹاتا رہا مجھے
وہ تھوڑا تھوڑا روز چراتا رہا مجھے


میرے پروں میں میری زمیں باندھنے کے بعد
وہ اپنی کہکشاں میں بلاتا رہا مجھے


ہر رات آنسوؤں سے بھگویا مرا بدن
ہر صبح دھوپ دے کے سکھاتا رہا مجھے


سگریٹ پیتا میں بھی لبوں سے لگا رہا
وہ بھی دھواں بنا کے اڑاتا رہا مجھے


اس کو تھی دھن کہ مجھ کو بنائے گا وہ گلاب
کانٹوں کے بیچ روز سجاتا رہا مجھے


پانی کی طرح میں بھی تھا مفت اس کے ہاتھ میں
اور وہ بھی بے دریغ بہاتا رہا مجھے


اس کو ہی میں نے ڈس لیا اک روز آخرش
جو اپنی آستیں میں چھپاتا رہا مجھے


اس کے نمک سے تھا مرا پیکر بنا ہوا
بارش سے اس لئے وہ بچاتا رہا مجھے