ناکام ولولوں کو لیے بھاگتے رہے

ناکام ولولوں کو لیے بھاگتے رہے
ہم سر پہ دلدلوں کو لئے بھاگتے رہے


نادیدہ منزلوں کی طرف ہم تمام عمر
حاجت کے قافلوں کو لیے بھاگتے رہے


وہ خوف تھا کہ درد کا احساس ہی نہ تھا
تلووں میں آبلوں کو لیے بھاگتے رہے


فرصت کہاں تھی دفن کریں میتوں کو ہم
بس مردہ حوصلوں کو لیے بھاگتے رہے


چھوڑا نہیں انہیں انہیں حل بھی نہیں کیا
ہم صرف مسئلوں کو لیے بھاگتے رہے


پہلے تمام شہروں کو جنگل صفت کیا
پھر سر پہ جنگلوں کو لیے بھاگتے رہے