Ehsaan Ghaman

احسان گھمن

احسان گھمن کی غزل

    اجالے ملتے بھلا کیسے رات کاٹنے سے

    اجالے ملتے بھلا کیسے رات کاٹنے سے کہ تیرگی نہیں گھٹتی چراغ بانٹنے سے فضا میں اڑتے پرندے بھی سمت بھول گئے ہوا میں گرہیں پڑیں ایسی پیڑ کاٹنے سے میں جانتا ہوں بیاباں کے بھید بھاؤ مگر خزاں کی دھوپ نکھرتی ہے پھول چاٹنے سے یہ سوچ کر میں کبھی دل کو رد نہیں کرتا بگڑ ہی جائے نہ یہ بچہ ...

    مزید پڑھیے

    کب وہ تنہائی کے آثار سے گھبرائے ہیں

    کب وہ تنہائی کے آثار سے گھبرائے ہیں لوگ تو رونق بازار سے گھبرائے ہیں کون کرتا ہے بھلا آبلہ پائی کا گلا ہم تو بس رستوں کی رفتار سے گھبرائے ہیں اپنے قامت سے نکلنا پڑا باہر ان کو جو شجر سایۂ دیوار سے گھبرائے ہیں لوگ قیمت تو لگائیں گے یہ بازار تو ہے بے وجہ ہم تو خریدار سے گھبرائے ...

    مزید پڑھیے

    میں حیران تھا منظر کی حیرانی پر

    میں حیران تھا منظر کی حیرانی پر پھول کھلے تھے بہتے ہوئے جب پانی پر میرے کپڑے دیکھ کے مٹی بول پڑی گھاس اگاؤ میری بھی عریانی پر میں نے تیرا نام لکھا جب تاروں پر چاند ہنسا تھا میری اس نادانی پر یاد کرو جس رات اکٹھے بیٹھے تھے گھنٹوں بات چلی تھی رات کی رانی پر دیکھے ہیں کچھ دیکھے ...

    مزید پڑھیے

    اے میرے شہر عشق ترا کیسا بخت ہے

    اے میرے شہر عشق ترا کیسا بخت ہے میں جس کو دیکھتا ہوں وہی لخت لخت ہے خوش ہو رہا ہوں اس لئے مٹی پہ بیٹھ کر یارو یہی زمین مرا پہلا تخت ہے چھاؤں کی جستجو بھی کہاں لے کے آ گئی صحرا سے پوچھتا ہوں کہیں پر درخت ہے دنیا مرے مزاج کو سمجھی نہیں ابھی شاید اسی لئے میرا لہجہ کرخت ہے اک پل میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو ہم صورت اشجار میں اگ آتے ہیں

    یہ جو ہم صورت اشجار میں اگ آتے ہیں تم سمجھتے ہو کہ بیکار میں اگ آتے ہیں ہم نہیں دیکھتے زرخیز زمینوں کی طرف ہم وہ پودے ہیں جو دیوار میں اگ آتے ہیں جتنی رفتار سے تم کاٹتے جاتے ہو ہمیں پھر سے ہم اتنی ہی مقدار میں اگ آتے ہیں جن کو گلدان میں رکھنا نہیں آیا ہے ہمیں پھول وہ وحشت کہسار ...

    مزید پڑھیے