اجالے ملتے بھلا کیسے رات کاٹنے سے

اجالے ملتے بھلا کیسے رات کاٹنے سے
کہ تیرگی نہیں گھٹتی چراغ بانٹنے سے


فضا میں اڑتے پرندے بھی سمت بھول گئے
ہوا میں گرہیں پڑیں ایسی پیڑ کاٹنے سے


میں جانتا ہوں بیاباں کے بھید بھاؤ مگر
خزاں کی دھوپ نکھرتی ہے پھول چاٹنے سے


یہ سوچ کر میں کبھی دل کو رد نہیں کرتا
بگڑ ہی جائے نہ یہ بچہ روز ڈانٹنے سے


جو پہلے تھی وہی نفرت ہے اس کے دل میں ہنوز
کہ یہ خلیج ہوئی کم نہ میرے پاٹنے سے


یہ اپنے اپنے مقدر کی بات ہے احسانؔ
سبھی کو پھول نہیں ملتے شاخ چھاٹنے سے