یہ جو ہم صورت اشجار میں اگ آتے ہیں
یہ جو ہم صورت اشجار میں اگ آتے ہیں
تم سمجھتے ہو کہ بیکار میں اگ آتے ہیں
ہم نہیں دیکھتے زرخیز زمینوں کی طرف
ہم وہ پودے ہیں جو دیوار میں اگ آتے ہیں
جتنی رفتار سے تم کاٹتے جاتے ہو ہمیں
پھر سے ہم اتنی ہی مقدار میں اگ آتے ہیں
جن کو گلدان میں رکھنا نہیں آیا ہے ہمیں
پھول وہ وحشت کہسار میں اگ آتے ہیں
سب کو سرداری بزرگی سے نہیں ملتی ہے
ایسے سر بھی ہیں جو دستار میں اگ آتے ہیں
اپنے اوصاف نہیں بھولتے احسانؔ کبھی
بیج پھل پھول جو اشجار میں اگ آتے ہیں