کب وہ تنہائی کے آثار سے گھبرائے ہیں

کب وہ تنہائی کے آثار سے گھبرائے ہیں
لوگ تو رونق بازار سے گھبرائے ہیں


کون کرتا ہے بھلا آبلہ پائی کا گلا
ہم تو بس رستوں کی رفتار سے گھبرائے ہیں


اپنے قامت سے نکلنا پڑا باہر ان کو
جو شجر سایۂ دیوار سے گھبرائے ہیں


لوگ قیمت تو لگائیں گے یہ بازار تو ہے
بے وجہ ہم تو خریدار سے گھبرائے ہیں


کس لئے مانگ رہے ہیں مری دستار وہ لوگ
جو مری جرأت گفتار سے گھبرائے ہیں


ہم کو ایسے نہیں آوارگی سوجھی احسانؔ
ہم تو اپنے در و دیوار سے گھبرائے ہیں