Dilnawaz Siddiqi

دلنواز صدیقی

دلنواز صدیقی کی غزل

    چھپنے کے لئے تو میری آنکھیں ہی بہت ہیں

    چھپنے کے لئے تو میری آنکھیں ہی بہت ہیں منظور نظر سب کے ہوں چاہیں بھی بہت ہیں صرف اپنے لئے جینے کو جینا نہیں کہتے اس راہ میں رشتوں کی سرائیں بھی بہت ہیں ٹوٹے ہوئے وعدوں کی سرنگوں میں گھروں کو جلتے ہوئے زخموں کی شعاعیں بھی بہت ہیں ہر شے پہ لگی ہے یہاں نیلام کی بولی بربادیٔ اخلاق ...

    مزید پڑھیے

    ہر عداوت پہ جہاں صلح کی صیقل ہو جائے

    ہر عداوت پہ جہاں صلح کی صیقل ہو جائے دوست سچا بھی نکل آئے تو پاگل ہو جائے چڑھتے دریا سے ڈرے ہیں تو ہے اپنوں کی تلاش کاش کچھ دیر کو یہ خوف مسلسل ہو جائے مات کھا کھا کے یوں ہی روتے رہے ہیں صدیوں ان کا دستہ بھی کسی بار ہراول ہو جائے کیوں جھکے سر یہ کسی غیر خدا کے آگے کیوں عقیدت میں ...

    مزید پڑھیے

    تم اپنے آپ کو بدلو تو دوسرا بدلے

    تم اپنے آپ کو بدلو تو دوسرا بدلے تمہیں یہ شوق کہ کردار آئینہ بدلے دل و دماغ کی راہیں ہیں مختلف کب سے تمہارے قرب سے شاید یہ فاصلہ بدلے کوئی تو خوف مقدر سے بے عمل ہو جائے کوئی عمل ہی سے قسمت کا فیصلہ بدلے انا کے زہر کو تھوکو تو متحد ہو جائیں بدی سے ہارتے رہنے کا سلسلہ بدلے تمام ...

    مزید پڑھیے

    اک پھٹی آستین کا دست دعا جھٹک دیا

    اک پھٹی آستین کا دست دعا جھٹک دیا یہ تو خدا کا ہاتھ تھا یہ تو نے کیا جھٹک دیا تو بھی زمیں پہ آ کے کر مٹی سے روح تک سفر میں نے تو سر جھکا لیا بار انا جھٹک دیا آتش انتقام سے اپنے وجود کو بچا میرا تو ذہن صاف ہے دل میں جو تھا جھٹک دیا اندھی گلی کے موڑ پر آئی تھی روشنی نظر چوں کہ مرا ...

    مزید پڑھیے

    خیال سے تو ابتدا ہوئی ہے کائنات کی

    خیال سے تو ابتدا ہوئی ہے کائنات کی عمل کی دسترس میں ہیں حدیں تخیلات کی فقط عمل کی ایک بات کر ہزار بات کی رخ حیات سے اٹھا ردا توقعات کی یہی تو اک دلیل ہے مریض نفسیات کی عدو یہ ذمہ داریاں ہیں اپنی واجبات کی سزا ہے کس گناہ کی کہ ایسے پاسباں ملے جو دشمنوں سے مانگتے ہیں بھیک التفات ...

    مزید پڑھیے

    جو اپنی پلکوں پہ آنسو سجائے رکھتے ہیں

    جو اپنی پلکوں پہ آنسو سجائے رکھتے ہیں وہ آستینوں میں خنجر چھپائے رکھتے ہیں جنہیں سکھایا تھا تہذیب کا سبق ہم نے ہمارے بارے میں سنگین رائے رکھتے ہیں ردائے صبر میں لپٹے ہوئے یہ سنت فقیر سمسیاؤں کا اتم اپائے رکھتے ہیں وفا کے خون کی سرخی کے ساتھ چہرے پر ہم ان کی یاد کے زیور سجائے ...

    مزید پڑھیے

    یہ حدوں حصار کی ساعتیں یہ مطالبے یہ قباحتیں (ردیف .. ے)

    یہ حدوں حصار کی ساعتیں یہ مطالبے یہ قباحتیں جو نہ ہوں پلوں میں بٹی ہوئی اسی ایک کل کی تلاش ہے کہیں آلہ ایک مشین کا کہیں ڈارون کا ہے بوزنا کبھی پھر سے بن سکے آدمی اسی ایک کل کی تلاش ہے میں مصر نہیں کسی سطح پر کسی طور پر کسی طرح پر جو دے ایک لمحہ کی نیند ہی اسی ایک کل کی تلاش ہے مرا ...

    مزید پڑھیے