تم اپنے آپ کو بدلو تو دوسرا بدلے
تم اپنے آپ کو بدلو تو دوسرا بدلے
تمہیں یہ شوق کہ کردار آئینہ بدلے
دل و دماغ کی راہیں ہیں مختلف کب سے
تمہارے قرب سے شاید یہ فاصلہ بدلے
کوئی تو خوف مقدر سے بے عمل ہو جائے
کوئی عمل ہی سے قسمت کا فیصلہ بدلے
انا کے زہر کو تھوکو تو متحد ہو جائیں
بدی سے ہارتے رہنے کا سلسلہ بدلے
تمام لمحوں کے موسم اسی کے ہاتھ میں ہیں
خدا یوں ہی رکھے کس کس کو کون سا بدلے
فریب فکر و نظر ہے کہ یہ ہے عظمت حرف
کہ متن یوں ہی رہے صرف حاشیہ بدلے