ہر عداوت پہ جہاں صلح کی صیقل ہو جائے
ہر عداوت پہ جہاں صلح کی صیقل ہو جائے
دوست سچا بھی نکل آئے تو پاگل ہو جائے
چڑھتے دریا سے ڈرے ہیں تو ہے اپنوں کی تلاش
کاش کچھ دیر کو یہ خوف مسلسل ہو جائے
مات کھا کھا کے یوں ہی روتے رہے ہیں صدیوں
ان کا دستہ بھی کسی بار ہراول ہو جائے
کیوں جھکے سر یہ کسی غیر خدا کے آگے
کیوں عقیدت میں کوئی عقل سے پیدل ہو جائے
ہم بھی آئیں گے تری نظر گزاری کو کبھی
ہاں ذرا خشک تذبذب کی یہ دلدل ہو جائے