ڈور
کبھی کبھی الجھ جاتی ہیں ڈور نہ کوئی سرا نہ کوئی چھور اکثار ڈھلنے لگتا ہے رنگ بدلنے لگتا ہے گرہیں کھلتی جاتی ہیں ریشہ جلنے لگتا ہے کھینچو تو اور الجھتی لگتی ہے نہ ہی ٹوٹے سے سلجھتی لگتی ہے کچھ اسی طرح الجھ گئی ہیں ہماری سانسوں کی ڈور بھی
کبھی کبھی الجھ جاتی ہیں ڈور نہ کوئی سرا نہ کوئی چھور اکثار ڈھلنے لگتا ہے رنگ بدلنے لگتا ہے گرہیں کھلتی جاتی ہیں ریشہ جلنے لگتا ہے کھینچو تو اور الجھتی لگتی ہے نہ ہی ٹوٹے سے سلجھتی لگتی ہے کچھ اسی طرح الجھ گئی ہیں ہماری سانسوں کی ڈور بھی
بہت دیر سے جل رہا تھا اک چراغ اس بند کمرے میں سورج کا اک ٹکڑا ہتھیلی سے بٹ کے بتی بنا لی تھی چاند کے کوئلے سے آگ لگا رکھی تھی مٹی کے گملے میں روشنی اگا رکھی تھی بجھا دیا تھا میں نے خود اپنے ہی ہاتھ سے پھر دیر تک اس کے دھوئیں میں دم گھٹتا رہا اسی شام دل کے بند کمرے میں بجھایا تھا میں ...
آج پھر پوٹلی کھول کر پرانا سامان مجھے ٹٹول رہا ہے بہت بول رہا ہے ڈبیہ میں کاجل ٹوٹی ہوئی پائل دوپٹے کا گوٹا شیشہ اک چھوٹا کچھ دور پڑی ہے ایک ریت گھڑی ہے لمحے بہتے رہتے ہیں مجھ سے کہتے رہتے ہیں عادتاً تم آج بھی مصروف ہو عادتاً میں دیر تک پلٹتا رہوں ریت گھڑی
پہیلیاں بجھائی ہیں کبھی ٹیڑھی میڑھی الجھی سلجھی الٹی سیدھی جو کہتی ہیں وہ ہوتا نہیں جو ہوتا ہے وہ سنا نہیں الجھے ہوئے دھاگے سے دیر تک سرا نہیں ملتا کبھی جھٹ سے سلجھ جاتے ہیں کچھ کبھی نہیں سلجھتے کبھی کوئی سرا کھینچو تو اور الجھ جاتے ہیں وقت لگتا ہے بڑا صبر لگتا ہے آؤ ...
میں اک تصویر میں ہوں لال زرد سنہری سترنگی کچھ بادل آسماں میں رکھے ہیں کسی نے چولھے پہ سینکے ہوں گے شاید ریت پہ کچھ لکیریں ہیں آ بھی رہی ہیں اور جاتی بھی ہیں ڈھک کے رکھ دیا ہے سورج ماں نے اوس کے برتن میں کہا ہے کل صبح اور ملے گا دور سے وہ بہت بڑا گھر چھوٹا سا لگ رہا ہے میں سوچتا ...