Bakhsh Layalpuri

بخش لائلپوری

ترقی پسند فکر کے حامل عوامی شاعر، برطانیہ کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر رہے

A people’s poet with progressive leanings, also served as the president of Progressive Writers Association of UK

بخش لائلپوری کی غزل

    رت نہ بدلے تو بھی افسردہ شجر لگتا ہے

    رت نہ بدلے تو بھی افسردہ شجر لگتا ہے اور موسم کے تغیر سے بھی ڈر لگتا ہے درد ہجرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو کہیں سایۂ در بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے ایک ساحل ہی تھا گرداب شناسا پہلے اب تو ہر دل کے سفینے میں بھنور لگتا ہے بزم شاہی میں وہی لوگ سرافراز ہوئے جن کے کاندھوں پہ ہمیں موم کا ...

    مزید پڑھیے

    بنتی نہیں بات تو پھر بات کیا کریں

    بنتی نہیں بات تو پھر بات کیا کریں بگڑے ہوئے ہیں شہر کے حالات کیا کریں آتی نہیں گرفت میں سانسوں کی ڈوریاں ہیں گردش مدام میں دن رات کیا کریں لفظوں کی ایک فوج ہے اپنی کمان میں منہ میں نہیں زباں تو مقالات کیا کریں ٹوٹا تعلقات کا ہر ایک سلسلہ ٹھنڈے پڑے ہیں وصل کے جذبات کیا کریں اے ...

    مزید پڑھیے

    قاتل ہوا خموش تو تلوار بول اٹھی

    قاتل ہوا خموش تو تلوار بول اٹھی مقتل میں خون گرم کی ہر دھار بول اٹھی پوچھا سبک سروں کا نمائندہ کون ہے سن کر فقیہ شہر کی دستار بول اٹھی اہل ستم کے خوف سے جو چپ تھی وہ زباں جب بولنے پہ آئی سر دار بول اٹھی میری تباہیوں کی ہے اس میں خبر ضرور از خود ہر ایک سرخیٔ اخبار بول اٹھی چہرہ ...

    مزید پڑھیے

    جو پی رہا ہے سدا خون بے گناہوں کا

    جو پی رہا ہے سدا خون بے گناہوں کا وہ شخص تو ہے نمائندہ کج کلاہوں کا جسے بھی چاہا صلیب ستم پہ کھینچ دیا فقیہ شہر تو قائل نہیں گواہوں کا ہم اہل دل ہیں صداقت ہمارا شیوہ ہے ہمیں ڈرا نہ سکے گا جلال شاہوں کا ہر ایک قدر کو رسوائیاں ملیں ان سے عجیب سا رہا کردار دیں پناہوں کا مری زمین ...

    مزید پڑھیے

    جہان جبہ و دستار کی حمایت کیا

    جہان جبہ و دستار کی حمایت کیا یزید وقت ہے کیا اور اس کی بیعت کیا منافقانہ روش عام ہوتی جاتی ہے نقاب پوشیٔ احباب کی شکایت کیا کسی بھی شخص کو اب حرف حق کا پاس نہیں پنپ رہا ہے یہاں پر دروغ حکمت کیا مجاوران جہالت کے بالا خانوں میں سخن طرازیٔ علم و ادب کی قیمت کیا مزہ تو جب ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    اسی کے ظلم سے میں حالت پناہ میں تھا

    اسی کے ظلم سے میں حالت پناہ میں تھا ہر اک نفس مرا جس شخص کی پناہ میں تھا چمک رہا تھا وہ خورشید دو جہاں کی طرح وہ ہاتھ جو کہ گریبان کج کلاہ میں تھا افق افق کو پیام سحر دیا میں نے مرا قیام اگرچہ شب سیاہ میں تھا مہک رہے تھے نظر میں گلاب سپنوں کے کھلی جو آنکھ تو دیکھا میں قتل گاہ میں ...

    مزید پڑھیے

    اطاق شب میں سحر کے چراغ روشن کر

    اطاق شب میں سحر کے چراغ روشن کر قبائے دل ہی نہیں دل کے داغ روشن کر کسی طریق سے تازہ ہوا گرفت میں لا کسی سبیل سے اپنا دماغ روشن کر مشام جاں میں بسا خیر و امن کی خوشبو پھر اس مہک سے محبت کے باغ روشن کر چھڑک کے خون رگ دل حقیر ذروں پر سواد منزل جاں کے سراغ روشن کر صلیب اٹھا کے کبھی ...

    مزید پڑھیے

    صفحۂ قرطاس پر خوش رنگ تحریریں نہیں

    صفحۂ قرطاس پر خوش رنگ تحریریں نہیں اپنے قبضے میں ابھی لفظوں کی جاگیریں نہیں زندگی ہم نے گزاری ایک بیوہ کی طرح خواب وہ دیکھے کہ جن کی کوئی تعبیریں نہیں جی رہے ہیں شہر میں سب لوگ اندیشوں کے ساتھ اک ترے ہی پاؤں میں سوچوں کی زنجیریں نہیں اور اچھلیں گے ادب کے مسخروں کے سر یہاں زنگ ...

    مزید پڑھیے

    مشقت کا خزانہ مانگتا ہے

    مشقت کا خزانہ مانگتا ہے مری محنت زمانہ مانگتا ہے ہر اک لمحہ دل آوارہ فطرت مسافت کا خزانہ مانگتا ہے مقدر سے جسے مانگا تھا میں نے اسے مجھ سے زمانہ مانگتا ہے عجب پاگل ہے میرے من کا پنچھی قفس میں آشیانہ مانگتا ہے ہمیں ہر آن آمادۂ ہجرت ہمارا آب و دانہ مانگتا ہے ستم یہ ہے کہ ہم ...

    مزید پڑھیے

    سمندر کا تماشہ کر رہا ہوں

    سمندر کا تماشہ کر رہا ہوں میں ساحل بن کے پیاسا مر رہا ہوں اگرچہ دل میں صحرائے تپش ہے مگر میں ڈوبنے سے ڈر رہا ہوں میں اپنے گھر کی ہر شے کو جلا کر شبستانوں کو روشن کر رہا ہوں وہی لائے مجھے دار و رسن پر میں جن لوگوں کا پیغمبر رہا ہوں وہی پتھر لگا ہے میرے سر پر ازل سے جس کو سجدے کر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2