اسی کے ظلم سے میں حالت پناہ میں تھا
اسی کے ظلم سے میں حالت پناہ میں تھا
ہر اک نفس مرا جس شخص کی پناہ میں تھا
چمک رہا تھا وہ خورشید دو جہاں کی طرح
وہ ہاتھ جو کہ گریبان کج کلاہ میں تھا
افق افق کو پیام سحر دیا میں نے
مرا قیام اگرچہ شب سیاہ میں تھا
مہک رہے تھے نظر میں گلاب سپنوں کے
کھلی جو آنکھ تو دیکھا میں قتل گاہ میں تھا
مرے حریف مجھے روند کر نکل نہ سکے
فصیل سنگ کی صورت کھڑا میں راہ میں تھا
جو بات بات پہ کرتا تھا انقلاب کی بات
سجی صلیب تو وہ حامیان شاہ میں تھا
عدو کی فوج نے لوٹا تو کیا ستم یہ ہے
رئیسؔ شہر بھی شامل اسی سپاہ میں تھا