صفحۂ قرطاس پر خوش رنگ تحریریں نہیں
صفحۂ قرطاس پر خوش رنگ تحریریں نہیں
اپنے قبضے میں ابھی لفظوں کی جاگیریں نہیں
زندگی ہم نے گزاری ایک بیوہ کی طرح
خواب وہ دیکھے کہ جن کی کوئی تعبیریں نہیں
جی رہے ہیں شہر میں سب لوگ اندیشوں کے ساتھ
اک ترے ہی پاؤں میں سوچوں کی زنجیریں نہیں
اور اچھلیں گے ادب کے مسخروں کے سر یہاں
زنگ آلودہ ابھی شعروں کی شمشیریں نہیں
مانگے تانگے پر گزارہ کر رہے ہیں دوستو
زندگی کرنے کی اپنے پاس تدبیریں نہیں
چیخ کی صورت حیات نو کا اک پیغام ہیں
ہم ہوا کی لوح پر بے جان تصویریں نہیں
سر جھکا کر ظلم سہنا بھی سراسر ظلم ہے
بخش ورنہ ظلم کی کچھ اور تفسیریں نہیں