Bakhsh Layalpuri

بخش لائلپوری

ترقی پسند فکر کے حامل عوامی شاعر، برطانیہ کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر رہے

A people’s poet with progressive leanings, also served as the president of Progressive Writers Association of UK

بخش لائلپوری کی غزل

    مرے ہر لفظ کی توقیر رہنے کے لیے ہے

    مرے ہر لفظ کی توقیر رہنے کے لیے ہے میں وہ زندہ ہوں مری تحریر رہنے کے لیے ہے ستم گر نے جو پہنائی مرے دست طلب میں یہ مت سمجھو کہ وہ زنجیر رہنے کے لیے ہے مرا آئینۂ تصنیف دیتا ہے گواہی مرا ہر نقطۂ تفسیر رہنے کے لیے ہے رہے گا تو نہ تیرا ظلم پر روز ابد تک ہمارے درد کی جاگیر رہنے کے لیے ...

    مزید پڑھیے

    رخ حیات ہے شرمندۂ جمال بہت

    رخ حیات ہے شرمندۂ جمال بہت جمی ہوئی ہے ابھی گرد ماہ و سال بہت گریز پا ہے جو مجھ سے ترا وصال تو کیا مرا جنوں بھی ہے آمادۂ زوال بہت مجھے ہر آن یہ دیتا ہے وصل کی لذت وفا شناس ہے تجھ سے ترا خیال بہت کتاب زیست کے ہر اک ورق پہ روشن ہیں یہ تیری فردہ نگاہی کے خد و خال بہت پلٹ گئے جو پرندے ...

    مزید پڑھیے

    پڑے ہیں راہ میں جو لوگ بے سبب کب سے

    پڑے ہیں راہ میں جو لوگ بے سبب کب سے پکارتی ہے انہیں منزل طلب کب سے یہ اور بات مکینوں کو کچھ خبر نہ ہوئی لگا رہے تھے محافظ مگر نقب کب سے کوئی بھی حربۂ تشہیر کارگر نہ ہوا تماشبیں ہی رہی شہرت ادب کب سے اکھڑ گئی ہیں طنابیں ستم کے خیموں کی الٹ گئی ہے بساط حسب نسب کب سے نہ حوصلہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    اسیران حوادث کی گراں جانی نہیں جاتی

    اسیران حوادث کی گراں جانی نہیں جاتی جہاں سے خون انسانی کی ارزانی نہیں جاتی دروغ مصلحت کے دیکھ کر آثار چہروں پر حقیقت آشنا آنکھوں کی حیرانی نہیں جاتی نشان خسروی تو مٹ گئے ہیں لوح عالم سے کلاہ خسروی سے بوئے سلطانی نہیں جاتی اندھیرا اس قدر ہے شہر پر چھایا سیاست کا کسی بھی شخص کی ...

    مزید پڑھیے

    تشنگئ لب پہ ہم عکس آب لکھیں گے

    تشنگئ لب پہ ہم عکس آب لکھیں گے جن کا گھر نہیں کوئی گھر کے خواب لکھیں گے تم کو کیا خبر اس کی زندگی پہ کیا بیتی زندگی کے زخموں پر ہم کتاب لکھیں گے جس ہوا نے کاٹی ہیں خامشی کی زنجیریں اس ہوا کے لہجے کو انقلاب لکھیں گے جھوٹ کی پرستش میں عمر جن کی گزری ہے تیرگیٔ شب کو وہ آفتاب لکھیں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی شے دل کو بہلاتی نہیں ہے

    کوئی شے دل کو بہلاتی نہیں ہے پریشانی کی رت جاتی نہیں ہے ہمارے خواب چوری ہو گئے ہیں ہمیں راتوں کو نیند آتی نہیں ہے کوئی تتلی کماں داروں کے ڈر سے فضا میں پنکھ پھیلاتی نہیں ہے ہر اک صورت ہمیں بھاتی نہیں ہے کوئی صورت ہمیں بھاتی نہیں ہے جس آزادی کے نغمے ہیں زباں پر وہ آزادی نظر آتی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی آنکھوں پہ کبھی سر پہ بٹھائے رکھنا

    کبھی آنکھوں پہ کبھی سر پہ بٹھائے رکھنا زندگی تلخ سہی دل سے لگائے رکھنا لفظ تو لفظ ہیں کاغذ سے بھی خوشبو پھوٹے صفحۂ وقت پہ وہ پھول کھلائے رکھنا چاند کیا چیز ہے سورج بھی ابھر آئے گا ظلمت شب میں لہو دل کا جلائے رکھنا حرمت حرف پہ الزام نہ آنے پائے سخن حق کو سر دار سجائے رکھنا فرش ...

    مزید پڑھیے

    دیدۂ بے رنگ میں خوں رنگ منظر رکھ دیے

    دیدۂ بے رنگ میں خوں رنگ منظر رکھ دیے ہم نے اس دشت تپاں میں بھی سمندر رکھ دیے وہ جگہ جو لعل و گوہر کے لیے مقصود تھی کس نے یہ سنگ ملامت اس جگہ پر رکھ دیے اب کسی کی چیخ کیا ابھرے کہ میر شہر نے ساکنان شہر کے سینوں پہ پتھر رکھ دیے شاخساروں پر نہ جب اذن نشیمن مل سکا ہم نے اپنے آشیاں دوش ...

    مزید پڑھیے

    حصول منزل جاں کا ہنر نہیں آیا

    حصول منزل جاں کا ہنر نہیں آیا وہ روشنی تھی کہ کچھ بھی نظر نہیں آیا بھٹک رہے ہیں ابھی زیست کے سرابوں میں مسافروں کو شعور سفر نہیں آیا تمام رات ستارہ شناس روتے رہے نظر گنوا دی ستارہ نظر نہیں آیا ہزار منتیں کیں واسطے خدا کے دیے یہ راہ راست پہ وہ راہ بر نہیں آیا زبان شعر پہ مہر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2