مرے ہر لفظ کی توقیر رہنے کے لیے ہے
مرے ہر لفظ کی توقیر رہنے کے لیے ہے میں وہ زندہ ہوں مری تحریر رہنے کے لیے ہے ستم گر نے جو پہنائی مرے دست طلب میں یہ مت سمجھو کہ وہ زنجیر رہنے کے لیے ہے مرا آئینۂ تصنیف دیتا ہے گواہی مرا ہر نقطۂ تفسیر رہنے کے لیے ہے رہے گا تو نہ تیرا ظلم پر روز ابد تک ہمارے درد کی جاگیر رہنے کے لیے ...