درد سے گزارش ہے تھما رہے
جس گوشۂ دل میں ہے جما رہے یہ کیا کہ رگ رگ میں اک حشر اٹھا رکھا ہے دیکھ یوں تڑپانے میں کیا رکھا ہے
جس گوشۂ دل میں ہے جما رہے یہ کیا کہ رگ رگ میں اک حشر اٹھا رکھا ہے دیکھ یوں تڑپانے میں کیا رکھا ہے
پھولوں کی سیج بھی نئیں اور سراسر غم کا افسانہ بھی نئیں کچھ کیف ہے کچھ کڑواہٹ بھی کچھ دلچسپ ہے کچھ اکتاہٹ بھی کچھ غم ہے کچھ راحت بھی سب کچھ ہے مگر سچ ہے یہ بھی اس سے بڑا کوئی سراب خانہ بھی نئیں میں نے تمہیں خط لکھا تھا ملا ہوگا تمہارے خط تو مجھے مل جاتے ہیں جو تم ہواؤں کے ہاتھ بھیجا ...
اتنی اونچی آواز کس کی ہے کس نے دستور سے انحراف کیا اس طوطی کے نقار خانے میں کس نے زنجیر حبس کو ساز کیا کون اٹھتا اس جہان سراسیمہ میں اہل جنوں نے ہی طبل سے آغاز کیا دن منایا جا رہا ہے گھر کے باہر آج میرا عالمی دن ہے بہت شور و غوغا ہے اور گھر کے اندر کولہو کے بیل کی طرح میں اپنے دائرے ...
جشن بہاراں میں آج قصیدۂ گل چھیڑیں محفل میں رنگ بھر دیں اور عنایت گل کا پھر بہار کو احسان مند کر دیں کہ جیسے سعادت غم سے گراں بار دل زخم زخم گل سے بہار جاں فزا کا سزاوار اک الگ طرح سے پھر اس گل پیرہن کو آج دل سوزیٔ جاں کا قرض اٹھائے سپاس نامۂ بہار غم میں مرحبا مرحبا کہہ دیں
دیوار جنوں سے لگ کر رونا اپنا ہی نوحہ در و دیوار سے کہنا پاگل پن کے آثار بہت ہیں کہتے نہیں لیکن طلب گار بہت ہیں یقیں مانو ہم بیمار بہت ہیں تو ہے تو بھی دل کے آزار بہت ہیں اور دل پیچیدہ کے اسرار بہت ہیں