درد سے گزارش ہے تھما رہے

جس گوشۂ دل میں ہے
جما رہے
یہ کیا کہ رگ رگ میں
اک حشر اٹھا رکھا ہے
دیکھ
یوں تڑپانے میں کیا رکھا ہے