تا بہ افلاک اگر اپنی رسائی ہوتی
تا بہ افلاک اگر اپنی رسائی ہوتی کچھ تعجب نہیں قبضے میں خدائی ہوتی ناصحا ہم کو طبیعت پہ جو قابو ہوتا دل سی دولت سر بازار گنوائی ہوتی موت نے مجھ کو فراموش کیا خوب کیا آپ نے آنکھ نہ اے کاش چرائی ہوتی میری مٹی کو ٹھکانے جو لگایا تھا تجھے سوئے بت خانہ یہ کم بخت اڑائی ہوتی سب کو تم ...