ہندو نہ بن سکا میں مسلماں نہ بن سکا
ہندو نہ بن سکا میں مسلماں نہ بن سکا
گیتا سنی نہ حافظ قرآں نہ بن سکا
میں درد سر تو بن گیا ہر ایک کے لیے
لیکن کسی کے درد کا درماں نہ بن سکا
مسند نشیں نہ بن سکا یہ اور بات تھی
صد حیف تیرے در کا بھی درباں نہ بن سکا
خود میں سما کے خود کو ہی کرتا رہا سلام
اپنے سوا کسی کا ثنا خواں نہ بن سکا
کتنے ہی شاد کام بشر سے خدا ہوئے
میں بد نصیب آج تک انساں نہ بن سکا
کانٹا تو بن گیا میں کسی خار زار میں
لیکن کبھی گل چمنستاں نہ بن سکا
شعر و سخن میں یوں تو گزاری تمام عمر
اس پر بھی اعظمؔ ایک سخنداں نہ بن سکا