تا بہ افلاک اگر اپنی رسائی ہوتی

تا بہ افلاک اگر اپنی رسائی ہوتی
کچھ تعجب نہیں قبضے میں خدائی ہوتی


ناصحا ہم کو طبیعت پہ جو قابو ہوتا
دل سی دولت سر بازار گنوائی ہوتی


موت نے مجھ کو فراموش کیا خوب کیا
آپ نے آنکھ نہ اے کاش چرائی ہوتی


میری مٹی کو ٹھکانے جو لگایا تھا تجھے
سوئے بت خانہ یہ کم بخت اڑائی ہوتی


سب کو تم ساغر زریں میں پلاتے ہو شراب
ہمیں تلچھٹ ہی شکورے میں پلائی ہوتی


رات دن شیخ حرم کلمہ بتوں کا پڑھتا
بت کدے میں جو کبھی اس کی رسائی ہوتی


بھولتے ہم نہ کبھی باد صبا کا احساں
کاکل یار کی خوشبو جو سنگھائی ہوتی


پوچھتا میں بھی مزاج آپ کا شوخی سے یوں ہی
چوٹ دل کی جو کہیں آپ نے کھائی ہوتی


تھا ازل سے دل اعظمؔ میں کوئی اور مکیں
اس میں کیا عشق حسیناں کی سمائی ہوتی