نہ ہوتی بھیڑ رندوں کی تو میخانے کدھر جاتے
نہ ہوتی بھیڑ رندوں کی تو میخانے کدھر جاتے
یہ مے نوشی کہاں ہوتی یہ پیمانے کدھر جاتے
اگر انسان بن جاتے کبھی شیخ و برہمن بھی
تو یہ کعبہ کہاں ہوتا یہ بت خانے کدھر جاتے
چراغ خانہ سے وہ بن گئے ہیں شمع محفل کی
اگر ایسا نہ ہوتا پھر یہ پروانے کدھر جاتے
ہماری بادہ نوشی پر ہوا حیران کیوں زاہد
نہ ہوتے پینے والے ہی تو میخانے کدھر جاتے
چمن زار جہاں میں گل ہی گل ہوتے اگر ہر سو
تو یہ کانٹے کہاں رہتے یہ ویرانے کدھر جاتے
اگر سینے میں دل ہوتا نہ پہلو میں جگر ہوتا
کہاں پلتی محبت اس کے افسانے کدھر جاتے
تری باتوں کا اے زاہد اگر کچھ بھی اثر ہوتا
نمازی صف بہ صف ہوتے یہ مستانے کدھر جاتے
اگر وہ اپنے بندوں پر در رحمت نہ وا کرتا
تو یہ بندے خدا کے پھر خدا جانے کدھر جاتے
سیہ بختی میں اپنے بھی پرائے ہو گئے اعظمؔ
اگر ہوتا نہ یہ اندھیر بیگانے کدھر جاتے