سودائے عشق خام تو ہر اک بشر میں ہے

سودائے عشق خام تو ہر اک بشر میں ہے
مجنوں سا ضبط و جوش و جنوں کس کے سر میں ہے


اک میں ہی مدح گو نہیں سرکار آپ کا
چرچا تمہارے حسن کا ہر ایک گھر میں ہے


اللہ رے نور مصحف رخسار کی دمک
یہ تاب یہ چمک کہاں لعل و گہر میں ہے


گھائل کیے ہزار تو لاکھوں جلا دئے
کیا بات ان کی نگۂ جادو اثر میں ہے


ناحق ہی کوستے ہو جو رندوں کو شیخ جی
دیکھا بھی رشک حور کوئی عمر بھر میں ہے


خنجر چھپا لیے ہیں جو مژگاں کی آڑ میں
ہم پر عیاں ہے سب جو تمہاری نظر میں ہے


بسمل ہوئے رقیب تو ہم تلملا اٹھے
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے


خانہ خراب عشق نے دنیا سے کھو دیا
اس پر بھی آج تک وہی خفقان سر میں ہے


اعظمؔ بجا ہے سیم تنوں کا غرور حسن
قدرت ہے ان کی بات میں جادو نظر میں ہے