کوئی تصویر یہاں آئنہ خانوں میں نہیں
کوئی تصویر یہاں آئنہ خانوں میں نہیں
اب ہدف کون ہو جب تیر کمانوں میں نہیں
بے حسی جبر مسلسل کا نتیجہ ٹھہری
حرف مصلوب ہوئے نطق زبانوں میں نہیں
لوگ کچھ اتنے حقیقت کے پرستار ہوئے
یعنی وہ شخص نیا ہے جو پرانوں میں نہیں
ہم کہ ماضی بھی ہیں امروز بھی ہیں فردا بھی
ہم سبھی کچھ ہیں مگر قید زمانوں میں نہیں
شاخ در شاخ تراشی گئیں راہیں کتنی
پر کشادہ تو ہوئے ربط اڑانوں میں نہیں
ایسا آشوب تو پہلے کبھی دیکھا نہ سنا
بھیڑ گلیوں میں ہے لوگ اپنے مکانوں میں نہیں
وہ محبت ہی محبت ہے یہ عرفاں بھی ہوا
اس کا مسکن تو دلوں میں ہے چٹانوں میں نہیں