ترے التفات کی بات تھی تری بے رخی کے گلے نہ تھے
ترے التفات کی بات تھی تری بے رخی کے گلے نہ تھے
تجھے شاید اس کی خبر تو ہو کہ ہمارے ہونٹ سلے نہ تھے
کسی اہل درد سے پوچھیے ذرا اس چمن کا معاملہ
وہ چمن کہ فصل بہار میں بھی جہاں پہ پھول کھلے نہ تھے
یہ رہ طلب کی مسافتیں کہیں خار ہے کہیں دار ہے
سر کوئے یار کھڑے تھے یوں کہ قدم ہمارے ہلے نہ تھے
بھلا عرض غم سے گزر کے بھی کبھی تم سے کوئی گلہ کیا
یہ جنون عشق کے تذکرے تو مری وفا کے صلے نہ تھے
جو عدو کو بزم ہوئی تو کیا وہ کچھ اس طرح ہیں گریز پا
کسی راہ میں کسی موڑ پر کبھی جیسے ہم سے ملے نہ تھے