اسلم مرزا کی غزل

    نکہت و نور کا سیلاب تھا چاروں جانب

    نکہت و نور کا سیلاب تھا چاروں جانب میں اکیلا تھا مرا خواب تھا چاروں جانب وصل کا نشہ رگ و پے میں سمندر جیسا اک بدن صورت مہتاب تھا چاروں جانب ہمرہی نے تری کھولے تھے رموز ہستی آنکھ بھر منظر شاداب تھا چاروں جانب تھا سماعت پہ وہی فقروں کا بوجھل شب خوں میں بھی تھا حلقۂ احباب تھا ...

    مزید پڑھیے

    گریہ کرتا ہے کبھی چپ کبھی ہنستا ہے وہی

    گریہ کرتا ہے کبھی چپ کبھی ہنستا ہے وہی میری وحشت مری حیرت کو سمجھتا ہے وہی کبھی خوشبو کبھی بادل کبھی موج دریا میرے اشعار میں سو رنگ بدلتا ہے وہی کوئی گزرا تھا دبے پاؤں جہاں سے اک دن راستہ خواب کی دہلیز سے ملتا ہے وہی دن کے ہنگاموں میں سورج سے رفاقت اس کی رات پھر چاند ستاروں سے ...

    مزید پڑھیے

    اپنا ماحول نفسیات سمجھ

    اپنا ماحول نفسیات سمجھ بات کرنے سے پہلے بات سمجھ کون کب کس لیے کہاں ہوگا رابطے اور تعلقات سمجھ موج دریا شمار کرنے میں قطرے قطرے کے مضمرات سمجھ بد گمانی کا تیز رو دریا توڑ دے گا حصار ذات سمجھ زندگی کے مزاج میں شامل ایک اک سانس حادثات سمجھ

    مزید پڑھیے

    کشتیاں اس کی بادباں اس کا

    کشتیاں اس کی بادباں اس کا ہے ہواؤں کو امتحاں اس کا وہ جو لمحہ ابھی نہیں آیا وصل میں خوف درمیاں اس کا وہ پرندہ ہے لوٹ آئے گا اس زمیں پر ہے آشیاں اس کا وہ مری طرح سوچ کر دیکھے میری تنہائی ہے زیاں اس کا قریۂ جاں مہک مہک اٹھا کیا تصور ہے گل فشاں اس کا ایک اک حرف ہے مری تخلیق نام ہے ...

    مزید پڑھیے