کشتیاں اس کی بادباں اس کا

کشتیاں اس کی بادباں اس کا
ہے ہواؤں کو امتحاں اس کا


وہ جو لمحہ ابھی نہیں آیا
وصل میں خوف درمیاں اس کا


وہ پرندہ ہے لوٹ آئے گا
اس زمیں پر ہے آشیاں اس کا


وہ مری طرح سوچ کر دیکھے
میری تنہائی ہے زیاں اس کا


قریۂ جاں مہک مہک اٹھا
کیا تصور ہے گل فشاں اس کا


ایک اک حرف ہے مری تخلیق
نام ہے زیب داستاں اس کا