گریہ کرتا ہے کبھی چپ کبھی ہنستا ہے وہی
گریہ کرتا ہے کبھی چپ کبھی ہنستا ہے وہی
میری وحشت مری حیرت کو سمجھتا ہے وہی
کبھی خوشبو کبھی بادل کبھی موج دریا
میرے اشعار میں سو رنگ بدلتا ہے وہی
کوئی گزرا تھا دبے پاؤں جہاں سے اک دن
راستہ خواب کی دہلیز سے ملتا ہے وہی
دن کے ہنگاموں میں سورج سے رفاقت اس کی
رات پھر چاند ستاروں سے الجھتا ہے وہی
خود شناسی جسے تفویض ہوئی ہے اسلمؔ
ٹھوکریں کھاتا ہے گرتا ہے سنبھلتا ہے وہی