نکہت و نور کا سیلاب تھا چاروں جانب
نکہت و نور کا سیلاب تھا چاروں جانب
میں اکیلا تھا مرا خواب تھا چاروں جانب
وصل کا نشہ رگ و پے میں سمندر جیسا
اک بدن صورت مہتاب تھا چاروں جانب
ہمرہی نے تری کھولے تھے رموز ہستی
آنکھ بھر منظر شاداب تھا چاروں جانب
تھا سماعت پہ وہی فقروں کا بوجھل شب خوں
میں بھی تھا حلقۂ احباب تھا چاروں جانب
میں کہاں کاسۂ الفت لیے پھرتا اسلمؔ
زر اخلاص ہی کم یاب تھا چاروں جانب